Wednesday, October 30, 2013

تعلیم نسواں: اہمیت ، ضرورت اور طریقۂ کار


                                                                                           باسمہ تعالیٰ
                                                                            تعلیم نسواں؛اہمیت،ضرورت اورطریقۂ کار

                                                                                                                                                            غفران ساجدقاسمی                                                                                                                                    جنرل سکریٹری:رابطہ صحافت اسلامی ہند
حرف اول:
مغرب سے جنم لینے والے ’’آزادئ نسواں‘‘اور’’حقوق نسواں‘‘جیسے دل فریب اورپُرکشش نعروں کی طرح گذشتہ برسوں میں’’تعلیم نسواں‘‘کے خوش نمانعرہ نے بھی کافی ترقی کی ہے اورحالیہ چندبرسوں میں برصغیرایشیاء بالخصوص ہندستان کے مختلف علاقوں میں’’تعلیم نسواں‘‘کے اسی خوش کن نعرہ کے نتیجہ میں بڑے پیمانے پرمدارس نسواں کا وجود ہوا اور روز بروزیہ تعدادبڑھتی ہی جارہی ہے۔تعلیم،یاتعلیم نسواں بہرصورت ضروری ہے،ضروری ہی نہیں بلکہ اسلام نے اسے فرض قراردیاہے۔یہ مذہب اسلام کاہی امتیازی وصف ہے کہ دیگرتمام ادیان ومذاہب کے مقابلہ میں اس نے علم کے حصول پرزیادہ زوردیاہے۔اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے محبوب اورآخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم پرجوسب سے پہلی وحی نازل کی اس میں بھی’’اقراء‘‘کے ذریعہ پڑھنے کی ہی تعلیم دی اورعلم کی اسی اہمیت کے پیش نظرنبی امی محمدعربی صلی اللہ علیہ وسلم نے’’طلب العلم فریضۃ علیٰ کل مسلم‘‘(متفق علیہ) ارشاد فرما کر ہر مسلمان مردوعورت پرعلم کاحصول فرض قراردیا۔
دنیاکی تاریخ اورقوانین عالم سے واقفیت رکھنے والاہرشخص بخوبی جانتاہے کہ دنیاکی سب سے عظیم طاقت(Super Power)کہلانے والی تنظیم’’اقوام متحدہ(UNO)نے اپنے منشورمیں علم حاصل کرنے کوانسان کابنیادی حق قراردیاہے،جب کہ اسلام نے علم حاصل کرنے کوفرض قراردیاہے۔اورحق اورفرض میں واضح فرق یہ ہے کہ حق نہ لینے پرزورزبردستی اورکسی قسم کامواخذہ نہیں ہے جب کہ اس کے برعکس فرض کی عدم ادائے گی کی صورت میں انسان سزاکامستحق ہوتاہے۔اس سے بھی پتہ چلتاہے کہ حصول علم کی سب سے زیادہ اہمیت،فضیلت اورتاکیدمذہب اسلام میں ہی ہے۔
یہ ایک ناقابل انکارحقیقت ہے کہ علم حاصل کرنے کے سلسلے میں مذہب اسلام کی تاکیدمردوزن کے لیے یکساں ہے۔غورکرنے کامقام ہے کہ بھلاوہ مذہب جس نے دنیائے انسانیت کواخوت وبھائی چارگی کاسبق سکھایا،ظلم وتفریق کے دلدل میں دھنسی ہوئی انسانیت کوعدل ومساوات کادرس دیا،ذلیل ترین اورحقیرشئی سمجھی جانے والی صنف نازک کوسماج اورمعاشرہ میں باوقارمقام عطاکیا۔۔۔بھلاوہ مذہب معاشرہ اورسماج کی نصف آبادی ۔۔۔عورت۔۔۔کوتعلیم جیسی عظیم نعمت سے کیسے محروم رکھ سکتاتھا۔حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے بلاتفریق جنس اورامیروغریب کے حصول علم کی تاکیدکرتے ہوئے ارشادفرمایا:’’طلب العلم فریضۃ علیٰ کلم مسلم‘‘(متفق علیہ)اوربرملااعلان فرمادیاکہ علم حاصل کرناہرمسلمان مردوعورت پرفرض ہے۔علم کسی کی جاگیرنہیں ہے۔ایسانہیں ہے کہ صرف مردوں کوہی علم حاصل کرنے کاحق ہے اورعورتیں اس حق سے محروم ہیں،اسی طرح صرف اُمراء اوررؤساء علم کواپنے گھرکی لونڈی بناکررکھیں گے اورغریب علم کے لیے ترسیں گے بلکہ اسلام نے یہ اعلان کردیاکہ ہرشخص اپنی حیثیت اوراستطاعت کے بقدرعلم حاصل کرے گااورضرورت کے بقدرعلم حاصل کرناہرمسلمان مردوعورت کے لیے فرض قراردیاگیا۔اوریہ بات واضح ہے کہ فرائض کی عدم ادائے گی کی صورت میں انسان سزاکامستحق ہوتاہے۔اس تفصیل سے ایک بات توواضح طورپرسمجھ میںآتی ہے کہ علم کاحاصل کرناہرمسلمان مردوعورت پرفرض ہے،اورمردوں کاعلم حاصل کرنا،اس کے لیے دوردرازمقام کاسفرکرناتو روایتوں اور اسلاف واکابرکے واقعات سے ثابت ہے،لیکن عورتوں کے علم حاصل کرنے کاطریقہ کیاہواوراس کے لیے نصاب تعلیم کیاہو،اوروہ کتناعلم اورکن کن لوگوں سے علم حاصل کرے، زیرنظرمضمون کاموضوع بحث یہی ہے۔
موجودہ دورمیں تعلیم نسواں کے علمبرداروں نے بڑے پیمانے پرمدارس نسواں قائم کیے ہیں اوران مدارس نسواں میں سے زیادہ ترتواقامتی ادارے ہیں جہاں طالبات کے قیام وطعام کامکمل نظم ہے اوران کے ذمہ داران بھی عموماًمردحضرات ہی ہیں،اوربہت سارے غیراقامتی مدارس نسواں بھی ہیں،لیکن دونوں طرح کے مدارس نسواں میں جوایک باتقدرمشترک ہے وہ دونوں اداروں کے ذمہ داران کامردہوناجوکہ اپنے آپ میں ایک لمحۂ فکریہ ہے۔
مناسب معلوم ہوتاہے کہ اصل گفتگوشروع کرنے سے قبل مختصراًاسلام سے قبل عورتوں کی کیاحالت تھی اوردیگرادیان ومذاہب میں عورتوں کے ساتھ کیساسلوک روارکھاجاتاتھا،اورتعلیم وتعلم سے متعلق دیگرادیان ومذاہب کاکیانظریہ تھااوراسلام میں علم کاکیامقام ہے ،اس پرروشنی ڈالی جائے۔
اسلام سے قبل عورت کامقام:
تمدن انسانی کی پوری تاریخ کابنظرغائرمطالعہ کیاجائے تویہ بات آفتاب نیم روزکی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ عورت کاوجوددنیامیں ذلت وشرم اورگناہ کاوجودتھا۔بیٹی کی پیدائش باپ کے لیے بلکہ سارے کنبے کے لیے سخت عیب اورموجب ننگ وعارتھی۔
بدھ مت میں عورت:
’’پانی کے اندرمچھلی کی طرح ناقابل فہم عادتوں کی طرح عورت کی فطرت بھی ہے،اس کے پاس چوروں کی طرح متعددحربے ہیں اورسچ کااس کے پاس گذرنہیں۔‘‘(انسائیکلوپیڈیاآف مذہب واخلاق۔۲۷۱،بحوالہ اسلام میں عورت کادرجہ اوراس کامقام:۳۴)
ہندودھرم میں عورت:
برہمن ازم میں شادی کوبڑی اہمیت حاصل ہے،ہرشخص کوشادی کرناچاہیے،لیکن منو(منوسمرتی مذہبی قانون کی کتاب کانام)کے قوانین کی روسے ’’شوہربیوی کاسرتاج ہے۔اسے اپنے شوہرکوناراض کرنے والاکوئی کام نہیں کرناچاہیے،حتیٰ کہ وہ اگردوسری عورتوں سے تعلقات رکھے یامرجائے تب بھی کسی دوسرے مردکانام اپنی زبان پرنہ لائے۔اگروہ نکاح ثانی کرتی ہے تووہ سورگ(جنت)سے محروم رہے گی جس میں اس کاپہلاشوہررہتاہے،زوجہ کے غیروفادارہونے کی صورت میں اسے انتہائی کڑی سزادی جانی چاہیے،عورت کبھی بھی آزادنہیں ہوسکتی،وہ ترکہ نہیں پاسکتی،شوہرکے مرنے پراپنے سب سے بڑے بیٹے کے تحت زندگی گذارنی ہوگی،شوہراپنی بیوی کولاٹھی سے بھی پیٹ سکتاہے۔(ایضاً)بلکہ ویدوں کے مطابق عورتوں کوویدکی تعلیم کی اجازت بھی نہیں تھی۔‘‘(حوالہ سابق)
چین میں عورت:
مسٹررے اسٹریجی چین میں عورت کی حیثیت کے بارے میں لکھتاہے:’’مشرق بعیدیعنی چین میں حالات اس سے بہترنہیں تھے،چھوٹی لڑکیوں کے پیروں کوکاٹھ مارنے کی رسم کامقصدیہ تھاکہ انہیں بے بس اورنازک رکھاجائے،یہ رسم اگرچہ اعلیٰ اورمال دارطبقات میں رائج تھی لیکن اس سے ’’آسمانی حکومت‘‘کے دورمیں عورتوں کی حالت پرروشنی پڑتی ہے۔‘‘(یونیورسل ہسٹری آف دی ورلڈ:۱؍۳۳۸،ایضاً)
انگلستان(یورپ) میں عورت:
انگلستان میں اسے ہرقسم کے شہری حقوق سے محروم رکھاگیاتھا،تعلیم کے دروازے اس پربندتھے،صرف چھوٹے درجہ کی مزدوری کے علاوہ کوئی کام نہیں کرسکتی تھی اورشادی کے وقت اسے اپنی ساری املاک سے دستبردارہوناپڑتاتھا۔۔۔۔۔۔یہ کہاجاسکتاہے کہ قرون وسطیٰ سے انیسویں صدی تک عورت کوجودرجہ دیاگیاتھااس سے کسی بہتری کی امیدنہیں کی جاسکتی تھی۔(تہذیب وتمدن پراسلام کے اثرات واحسانات،بحوالہ سابق)
ہندوستانی سماج میں عورت:
برہمنی زمانہ اورتہذیب میں عورت کاوہ درجہ نہیں رہاتھاجوویدی زمانہ میں تھا۔منوکے قانون میں(بقول ڈاکٹرلی بان)عورت ہمیشہ کمزوراوربے وفاسمجھی گئی ہے اوراس کاذکرہمیشہ حقارت کے ساتھ آیاہے۔شوہرمرجاتاتوعورت گویاجیتے جی مرجاتی اورزندہ درگورہوجاتی،وہ کبھی دوسری شادی نہ کرسکتی،اس کی قسمت میں طعن وتشنیع اورذلت وتحقیرکے سواکچھ نہ ہوتا،بیوہ ہونے کے بعداپنے متوفی شوہرکے گھرلونڈی اوردیوروں کی خادمہ بن کررہناپڑتا،اکثربیوائیں اپنے شوہروں کے ساتھ ستی ہوجاتیں۔ڈاکٹرلی بان لکھتاہے:’’بیواؤں کواپنے شوہروں کی لاش کے ساتھ جلانے کاذکرمنوشاسترمیں نہیں ہے لیکن معلوم ہوتاہے کہ یہ رسم ہندوستان میں عام ہوچکی تھی کیوں کہ یونانی مؤرخین نے اس کاذکرکیاہے۔‘‘(تمدن ہند:۲۳۸)
عورت اسلام کے سایہ میں:
اسلام کے آنے کے بعدعورتوں کی حالت میں جوتبدیلی رونماہوئی اس کاذکرکرتے ہوئے مولاناسیدابوالاعلیٰ مودودیؒ نے بڑااچھانقشہ کھینچاہے۔مولانالکھتے ہیں:’’یہی وہ حالات تھے کہ مکہ کے پہاڑوں سے آفتاب کی پُرنورکرنیں پورے جاہ وجلال کے ساتھ نمودارہوتی ہیں،اورنہ صرف قانونی اورعملی حیثیت سے بلکہ ذہنی حیثیت سے بھی اسلام ایک عظیم انقلاب برپاکردیتاہے۔اسلام ہی نے عورت اورمرددونوں کوبدلاہے۔عورت کی عزت اوراس کے حق کاتخیل ہی انسان کے دماغ میں اسلام کاپیداکیاہواہے۔آج حقوق نسواں،تعلیم نسواں اوربیداری اناث کے جوبلندبانگ نعرے پردہ سماع سے ٹکرارہے ہیںیہ اسی انقلاب انگیزصداکی بازگشت ہے جومحمدعربی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے بلندہوئی تھی اورجس نے افکارانسانی کے رخ کادھاراپھیردیا،وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں جنہوں نے دنیاکوبتایاکہ عورت بھی ویسی ہی انسان ہے جیسامرد۔‘‘(پردہ:۱۸۹)
اسی طرح اسلام میں عورتوں کامقام اوراس کی اہمیت اس حدیث سے بھی اجاگرہوتی ہے جس میں حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کے لیے دوہرے اجرکی بشارت دی ہے جس نے اپنی باندی کی بہترتعلیم وتربیت کی پھراسے آزادکیااوراس سے شادی کرلی۔(بخاری:۱؍۲۰)غورکرنے کامقام ہے کہ جومذہب ایک باندی کی تعلیم وتربیت پردوہرے اجرکی خوش خبری دیتاہو،بھلااس مذہب میں اپنی بیٹی اوربہن کی تعلیم وتربیت پرکس قدراجروثواب ہوگا۔
دیگرادیان ومذاہب میں عورتوں کی حیثیت اوراسلام نے عورتوں کوجوعزت ومقام عطاکیااس کے تقابلی مطالعہ کے بعدیہ بھی ملاحظہ کرتے چلیں کہ اسلام میں علم کی کیااہمیت ہے اوردیگرادیان ومذاہب میں تعلیم وتعلم کے بارے میں کیاتصورپایاجاتاہے۔
علم اسلام کی نظرمیں:
اسلام نے علم کی اہمیت اوراس کی قدروقیمت پرمکمل طورپرروشنی ڈالی ہے۔اس نے تعلیم کوانسان کی،خواہ مردہویاعورت بہت سی ضرورتوں میں سے ایک ضرورت ہی نہیں بلکہ تمام انسانوں کی اولین اوربنیادی ضرورت قراردیاہے۔اسلام کے علاوہ دنیاکاکوئی مذہب اورنظریہ ایسانہیں ہے جس نے تعلیم کوتمام انسانوں کی ایک بنیادی ضرورت قراردیاہو،حتیٰ کہ یونان اورچین بھی جواپنی علمی ترقیات کی وجہ سے غیرمعمولی شہرت کے حامل ہیں،اس کے قائل نہ تھے ،یہ اسلام ہی ہے جس نے عام شہریوں کی بھی تعلیم کاتصورپیش کیااوردینی تعلیم کے ساتھ عصری علوم کے حصول کوبھی جائزقراردیا۔(اسلام اورعلم:۳)
علم اوردیگرادیان ومذاہب:
اسلام کے علاوہ دوسرے مذاہب میں علم توایک صرف محدودمذہبی طبقہ میں منحصرتھی،’’ہندودھرم‘‘کی روسے شودروں کے لیے’’ویدوں‘‘شلوک سننابھی ناجائزتھااوران کے لیے سزایہ تھی کہ ان کے کانوں میں گرم سیسہ ڈالاجاتاتھا۔عیسائی مذہب میں فکری آزادی پراتنی پابندی تھی کہ ان آدمیوں کوسخت سزادی جاتی تھیں جوکوئی نیاعلمی نظریہ پیش کرتے تھے،عیسائی علماء اتنے تنگ نظرتھے کہ کسی بھی نئی بات کوبرداشت نہیں کرسکتے تھے،ان کی کوتاہ نظری کی وجہ سے بہت سے مفکربے دین اوربہت سارے حکماء جادوگرقراردیے گئے جس کانتیجہ یہ نکلاکہ ان کے یہاں ذہنی ارتقاء بالکل رک گئی۔(اسلام اورعلم:۳)
اسپین میں جب مسلمانوں کی حکومت قائم ہوگئی اورملک کے گوشہ گوشہ میں مدارس قائم ہوئے تویورپی طالب علموں کاتانتابندھ گیا۔وہ یہاںآکرتعلیم حاصل کرتے اوراپنے ملک واپس جاکراس کی تبلیغ وترویج کرتے،گویاکہ یہ صرف اسلام کی برکت اورمسلمانوں کی فراخ دلی کانتیجہ تھاکہ یورپ میں علم وحکمت کی روشنی پھیلی۔خودیورپ کے مؤرخین اورمفکرین اس کے معترف ہیں۔رابرٹ،بریفالٹ اورڈاکٹرموسیولیبانی نے اس اعتراف کووضاحت سے لکھاہے۔(اسلام اورعلم:۳)
مذکورہ بالاسطورسے یہ بات روزروشن کی طرح عیاں ہوگئی کہ جس طرح دیگرادیان ومذاہب میں عورتوں کی کوئی حیثیت نہ تھی،وہ سماج اورمعاشرہ کی ذلیل ترین مخلوق سمجھی جاتی تھی،مردوں کے لیے اس کی حیثیت صرف ایک کھلونااوردل کوبہلانے والی شئی سے زیادہ نہ تھی،اسی طرح دیگرادیان ومذاہب میں علم بھی ایک خاص طبقہ کے لیے مخصوص تھا،عورتوں کاحصول علم توبہت دورکی بات ہے خودشودرقوموں کے لیے مطلقاًعلم ایک شجرممنوعہ کی حیثیت رکھتی تھی۔یہ اسلام کی ہی برکت ہے کہ جہاں وہ ایک طرف سماج کی دبی کچلی معصوم اورمظلوم مخلوق کوباعزت مقام عطاکیاوہیں دوسری طرف اسلام نے علم کی اہمیت وفضیلت کواجاگرکرتے ہوئے ببانگ دہل اعلان کردیاکہ علم کاحاصل کرناہرمسلمان مردوعورت پرفرض ہے۔(الحدیث)اوراس اعلان کے ساتھ ہی اسلام نے عورتوں کومردوں کے مساوی حقوق عطاکرنے کے ساتھ ساتھ اسے علم حاصل کرنے کامجازاوربرابرکاحق داربتایا۔
مندرجہ بالاسطورکوپڑھیں اورغورکریں کہ اس روئے زمین پراسلام کے علاوہ کوئی بھی ایسامذہب ہے جس نے سماج کی نصف آبادی کواتنے واضح اورمساویانہ حقوق عطاکیے ہوں،اورساتھ ہی حصول علم کے سلسلہ میں سماج کے دونوں صنف کویکساں حقوق عطاکیے ہوں۔آپ دنیاکی تاریخ پڑھ ڈالیں،مذاہب کاتقابلی مطالعہ کریں توآپ کومعلوم ہوگاکہ اسلام کے علاوہ کسی مذہب اورنہ ہی کسی انسانی قانون نے عورتوں کواتنے مساوی حقوق دیے ہیں۔آزادئ نسواں اورحقوق نسواں کے نام نہادعلمبرداروں نے عورتوں کوآزادی اورحقوق دلانے کے نام پراسے بازاروں اورمحفلوں کی زینت بنادیااورانہوں نے یہ ڈھنڈوراپیٹاکہ اسلام عورتوں کی آزادی کامخالف اورعورتوں کے حقوق کوغصب کرنے والا مذہب ہے اورعورتوں کوصحیح حق تومغرب نے دیاہے۔لیکن اہل خرداوراہل دانش بخوبی واقف ہیںآزادی نسواں اورحقوق نسواں کی آڑمیں عورتوں کاکس قدراستحصال کیاجارہاہے۔آزادی نسواں اورحقوق نسواں کی آڑمیں مغرب کاخاندانی نظام تباہ ہوچکاہے اوراہل مغرب بھی اس خوشنمافریب سے باہرآنے کوپرتول رہے ہیں اوردنیابھی فطرت کی طرف لوٹنے پرمجبورہے۔
ایک ایسے وقت اورایسے ماحول میں جب کہ معاشرہ کی نصف آبادی خوداپنی حیثیت اوراپنے مقام سے ناآشناہے جواسے اسلام نے عطاکیاہے،ضرورت ہے کہ وہ اپنے مقام کوجانے،اپنی حیثیت کوپہچانے تاکہ وہ مغرب کے خوشنمانعروں سے متاثرنہ ہوسکے اوراسلام اورمغرب کوحقیقت کی آنکھ سے دیکھ سکے۔اوریہ تبھی ممکن ہے جب عورت تعلیم یافتہ ہوگی اوراپنے حقوق سے واقف ہوگی اوراس واقفیت کے لیے اسے زیورتعلیم سے آراستہ کرنے کی ضرورت ہے۔اوریہ ذمہ داری اسلام نے مردوں کوسونپ دی ہے جوکہ عورت کے مقابلہ طاقتورصنف ہے۔اب یہ مستقل بحث ہے کہ تعلیم کاطریقۂ کارہو؟
لڑکیوں کی تعلیم اورطریقۂ کار:
لڑکیوں کی تعلیم ضروری ہے اس سے کوئی انکارنہیں کرسکتا،لیکن تعلیم کاطریقۂ کارکیاہو؟آیاوہی طریقہ اپنایاجائے جولڑکوں کی تعلیم کے لیے رائج ہے یااسلاف کے طریقوں میں غوروخوض کرکے بہترطریقۂ کارتلاش کیاجائے۔اس سلسلہ میں جب ماضی کے دریچوں میں جھانک کرتعلیم نسواں پرغورکرتے ہیں توایسی کوئی مثال نظرنہیںآتی ہے، البتہ دورنبوت کے ایک واقعہ سے اس سلسلہ میں کچھ رہنمائی ضرورملتی ہے کہ حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کی تعلیم وتربیت کے لیے ایک علاحدہ دن مقرر فرمایا تھا۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکرہے کہ جس طرح مردوں کے لیے مسجدنبوی میں صفہ کاتذکرہ ملتاہے عورتوں کے لیے اس طرح کے کسی صفہ یاکسی خاص مقام کاتذکرہ دورنبوی میں نظر نہیں آتا۔اسی طرح حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے بعدخلافت راشدہ کے زمانے میں اوراس کے بعدبھی بے شمارمحدثات،فقیہات،ادیبہ اورشاعرات کاذکرتوملتاہے لیکن باضابطہ کسی مدرسہ نسواں کاکوئی ادنیٰ ساذکربھی نہیں ملتا،اورنہ ہی خواتین کاحصول علم کے لیے دوردرازمقام کے سفرکاکوئی تذکرہ تاریخ وسیرکی کتابوں میں دستیاب ہے۔(کم ازکم راقم السطورکی نظروں سے ایساکوئی واقعہ نہیں گذرا)جب کہ ایسانہیں ہے کہ اس دورمیں باکمال خواتین پیدانہیں ہوئیں بلکہ ہرزمانہ اورہرعہدمیں ہرفن میں ممتازخواتین پیداہوئیں جنہوں نے اپنے علم وفن سے عالم انسانیت کوحیران وششدرکردیاہے۔اوراپنے علم وعمل سے ایک دنیاکوفیض پہونچایاہے جس کی مثال کم ازکم موجودہ دورمیں تونہیں ملتی۔لیکن ساتھ ہی یہ بھی حیرت کی بات ہے کہ دورنبوت سے لے کرہندوستان کی مغلیہ حکومت تک کسی بھی زمانہ میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے باضابطہ کسی مدرسۂ نسواں کاوجودتاریخ میں نہیں ملتاہے۔اس تذکرہ سے یہ مطلب نہ نکالاجائے کہ لڑکیوں کی تعلیم ضروری نہیں ہے یاموجودہ طرزپرچلائے جارہے مدارس نسواں اچھی چیزنہیں ہیں بلکہ وقت اورحالات کے لحاظ سے یہ ضروری ہے ،لیکن موجودہ مدارس نسواں کے بانیوں اورمنتظموں کے پیش نظراسلاف کااُسوہ ضرورہوناچاہیے۔اس سلسلہ میں علمائے دیوبندکے سرخیل اورمجددوقت حکیم الامت حضرت مولانااشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کاتعلیم نسواں اورمدارس نسواں کے سلسلہ میں جوخیالات تھے اورانہوں نے جوطریقۂ کاراپنایااس کاذکرمدارس نسواں کے منتظمین کے لیے مشعل راہ ثابت ہوگا۔حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے تھانہ بھون کے مدرسہ نسواں کاذکرکرتے ہوئے تحریرفرمایاہے:
’’میں نے بھی تھانہ بھون میں ایک لڑکیوں کامدرسہ قائم کیاہے،لڑکیاں معلمہ کے گھرمیں جمع ہوجاتی ہیں(وہی گھرگویالڑکیوں کامدرسہ ہے)اورمیں ان کی خدمت کردیتاہوں،لیکن میں نے یہاں تک احتیاط کررکھی ہے کہ میں خودکسی لڑکی کوبھیجنے کی ترغیب نہیں دیتایہ انہی معلمہ سے کہہ دیاہے کہ سب تمہاراکام ہے تم جتنی لڑکیوں کوبلاؤگی تنخواہ زیادہ ملے گی،اس مدرسہ میں ماہانہ امتحان بھی ہوتاہے،سولڑکیاں کبھی امتحان دینے کے لیے گھرپرچلی آتی ہیں اورمیری اہل خانہ یعنی بیویاںیامیرے خاندان کی کوئی بی بی ان کاامتحان لے لیتی ہیں اورکبھی لڑکیوں کونہیں بلایاجاتابلکہ ممتحنہ وہیں چلی جاتی ہیں اورامتحان لے لیتی ہیں اورصرف امتحان کانتیجہ میرے سامنے پیش ہوجاتاہے اورباقی ان پرمیرانہ کوئی اثراورنہ دخل۔ نمبر ممتحنہ دیتی ہیں،ان نمبروں پرانعام میں تجویزکرتاہوں۔الحمدللہ اس طرزپرمدرسہ برابرچلاجارہاہے اورایک بات بھی کبھی خرابی کی نہیں ہوئی(الغرض)لڑکیوں کی تعلیم کاانتظام یا تو اس طورپرہوکہ لڑکیاجمع نہ ہوں اپنے اپنے گھروںیامحلہ کی بیبیوں سے تعلیم پائیں،لیکن آج کل یہ عادتاًبہت مشکل ہے۔یااگرایک جگہ جمع ہوں توپھریہ انتظام ہوکہ مردان سے سابقہ نہ رکھیں اوراپنی مستورات سے نگرانی کروائیں،ان سے خودبات چیت بھی نہ کریں۔

دوسرے اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ سکریٹری(ناظم)بضرورت متقی بن جائے،چاہے وہ آزادخیال ہومگراسے مولوی کی شکل بناناچاہیے تاکہ معلمہ پراس کے تقویٰ کااثرپڑے۔
میری دانست میں تعلیم نسواں کے یہ اصول ہیں،آگے اورلوگ اپنے تجربوں سے کام لیں،کچھ میرے خیالات کی تقلیدضروری نہیں۔(اصلاح التیافی حقوق وفرائض:۴۰۱۔۴۰۴)
مقام فکر:
حکیم الامت حضرت تھانویؒ کاطریقۂ کاردیکھنے کے بعداندازہ ہوتاہے کہ حضرت تھانویؒ جیساحکیم الامت،مدبر،مصلح اوراپنے وقت کے مجددجہاں ایک طرف عورتوں کی تعلیم کوضروری سمجھتے ہیں وہیں لڑکیوں کی تعلیم کے سلسلہ میں حددرجہ احتیاط سے کام لیتے تھے کہ احتیاطاًکوئی ایساگوشہ کمزورنہ ہوجس سے کسی فتنہ کے درآنے کاخدشہ ہو،حضرت تھانویؒ نے اپنے عملhttp://cdncache-a.akamaihd.net/items/it/img/arrow-10x10.png سے آنے والی نسل کویہ پیغام دیاہے کہ بہرحال کام ہوناہے،لڑکیاں جوہمارے معاشرہ کی نصف آبادی ہیں انہیں زیورتعلیم سے آراستہ کرناہے لیکن اس قدراحتیاط برتنی ہے کہ یہ تعلیم ان کے لیے ہراعتبارسے مفیدہومضرنہ ہو،اوروہ دین کاعلم حاصل کرنے کے بعدایسی خاتون بنیں جوپورے معاشرہ کی اصلاح کاذریعہ ہونہ کہ اس کے عمل اورکردارسے فسادپھیلے۔حضرت تھانویؒ کامشورہ منتظمین کے لیے مشعل راہ کی حیثیت رکھتاہے کہ آپ چاہے جتنے بھی آزادخیال ہوں لیکن معلمات اورطالبات پراچھااثرڈالنے کے لیے بضرورت متقی بن جائیں تاکہ معلمات اورطالبات انہیں اپنااسوہ بنالیں اوران کے کرداربھی اچھے ہوں۔یہ مشورہ موجودہ دورکے تمام مدارس نسواں کے منتظمین کے لیے سنگ میل کادرجہ رکھتاہے۔
حرف آخر:
گفتگوکاماحصل یہ ہے کہ جس طرح عورتوں کواسلام نے باعزت مقام بخشااسی طرح عورتوں پرعلم کے حصول کوبھی فرض قراردیا۔گرچہ زمانہ ماضی اورعہداسلامی میں کسی مدرسہ نسواں کاوجودنہیں ملتالیکن حالات اورزمانہ کی تبدیلی کے پیش نظرمدارس نسواں کاقیام ناگزیرہے،البتہ مدارس نسواں کے منتظمین کوچاہیے کہ وہ حکیم الامت حضرت تھانویؒ کے اصول پرسختی سے کاربندرہتے ہوئے ادارہ کوچلائیں،انشاء اللہ اس کافائدہ عام ہوگااورخلق کثیرکواس سے نفع پہونچے گا اوران اداروں سے ایسی باکردارخواتین پیداہوں گی جن سے دنیاکے گوشہ گوشہ میں اسلام پھیلے گااوران خواتین کے بطن سے مبلغین اسلام اورمجاہدین اسلام جنم لیں گے۔اللہ ان اداروں کے فیض کوعام کرے۔آمین 
وبااللہ التوفیق وھوالمستعان۔۔۔وماعلیناالاالبلاغ

No comments:

Post a Comment