Monday, November 4, 2013

متحد ہوتو بدل ڈالو زمانے کانظام!!!


                                                                                         باسمہ تعالیٰ
                                                                          
متحدہوتوبدل ڈالوزمانے کانظام!
نوائے بصیرت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔غفران ساجدقاسمی

اتحادواتفاق ،بھائی چارگی اورآپسی میل محبت خیروبرکت اوربھلائی کاذریعہ ہے۔بچپن سے ہم یہ کہانی سنتے آرہے ہیں کہ ایک لاٹھی کو کوئی بھی توڑسکتاہے لیکن جب ایک جگہ لاٹھیوں کاگٹھرہوجس میں بہت ساری لاٹھیاں بندھی ہوں توپھراسے توڑنامشکل ہی نہیں ناممکن ہوجاتاہے۔یہ کہانی عموماہراس گھرمیں بچوں کوسنائی جاتی ہے جہاں ایک ماں باپ کے کئی نرینہ اولادہوتے ہیں،وہ انہیں بچپن میں اس طرح کے واقعات سناکراتحادواتفاق کی اہمیت کواجاگرکرتے ہیں تاکہ بڑے ہوکریہ آپس میں متحدرہ سکیں،اوردنیاکی کوئی بھی شرپسند طاقت ان کے اتحادکوپارہ پارہ نہ کرسکے،وہ لوگ جواپنے والدین کے اطاعت شعاراوران کی باتوں کواپنے لیے مشعل راہ سمجھ کرپوری زندگی ان کے بتائے ہوئے اصولوں پرعمل کرتے رہتے ہیں دیکھایہی گیاہے کہ وہ ہمیشہ آپس میں اتحادواتفاق کامظاہرہ کرتے ہیں اورکوئی بھی بیرونی طاقت ان کے اس اتحادکوپارہ پارہ نہیں کرپاتی ہے،ان کی آپسی محبت اوربھائی چارگی دنیاوالوں کے لیے ایک مثال بن جاتی ہے اوروہ اپنے اس اتحادواتفاق کے ذریعہ بڑی بڑی شیطانی طاقتوں کومات دیدیتے ہیں لیکن اس کے برعکس جولوگ اتحاد و اتفاق کے بجائے اختلاف وانتشارمیں زندگی گذارتے ہیں انہیں کوئی بھی شخص بڑی آسانی سے زیرکردیتاہے،ایسی صورت میں وہ اپنے آپ کوبچانے کے لیے کسی بڑی طاقت کے زیرسایہ چلاجاتاہے جواسے انجانے خوف میں مبتلاکرکے اپنے مفادات کے حصول کے لیے پوری زندگی اس کااستحصال کرتارہتاہے اوروہ بھی بلاچوں وچرااس کے دام فریب میں پھنس کربآسانی شکارہوتارہتاہے۔
اتحادواتفاق ہرشخص کے لیے محبوب ہے،خواہ وہ دنیاکے کسی خطہ،کسی قوم اورکسی ملک سے تعلق رکھنے والاہو،اسی طرح ہرایک کے نزدیک اتحادواتفاق کامرکزبھی الگ الگ ہے،کسی کے لیے ایک ملک کاہونامرکزاتحادہے توکسی کے لیے ایک قوم یاایک قبیلہ سے ہونامرکزاتحادکی وجہ بنتی ہے،لیکن مسلمانوں کے لیے مرکزاتحادصرف ایک ہے اوروہ ہے کلمۂ توحید ’’لاالہٰ الااللہ محمدرسول اللہ‘‘،اتحاداتفاق کی اسی اہمیت کوواضح کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کوصریح لفظوں میں حکم دیاکہ’’اللہ کی رسی کومضبوطی سے تھام لواورآپس میں اختلاف مت پیداکرو‘‘(آل عمران:۱۰۳)آیت مذکورمیں رسی کے لیے اللہ نے لفظ ’حبل‘کااستعمال فرمایاہے اوراس ’حبل‘کی تفسیرکے بارے میں حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کایہ ارشادنقل فرمایاہے کہ ’حبل‘سے مراد’’قرآن مجید‘‘ہے،یعنی اللہ نے مسلمانوں کوحکم دیاکہ وہ آپسی اتحادواتفاق کے لیے قرآن کو اپنا نقطۂ اتحادبنالیں اوراس کے احکام پرمضبوطی سے عمل پیرارہیں اورآپس میں پھوٹ نہ ڈالیں،گویاقرآن ہمارے لیے ’’مرکزاتحاد‘‘ہے،جس کاحکم بذات خوداللہ جل شانہ‘ نے دیا ہے،جس کی تشریح اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح فرمائی ہے کہ:اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے تین چیزوں کوپسندفرمایاہے اورتین چیزوں کوناپسند،پسندیدہ چیزیں یہ ہیں: (۱)تم اللہ کے لیے عبادت کرو،اوراس کے ساتھ کسی کوشریک نہ ٹھہراؤ۔(۲)اللہ تعالیٰ کی کتاب کومضبوطی سے تھامو،اورنااتفاقی سے بچو۔(۳)اپنے حکام اوراولوالامرکے حق میں خیرخواہی کاجذبہ رکھو۔اوروہ تین چیزیں جن سے اللہ تعالیٰ ناراض ہوتے ہیں یہ ہیں:(۱)بے ضرورت قیل وقال اوربحث ومباحثہ۔(۲)بلاضرورت کسی سے سوال کرنا۔ (۳) اضاعت مال۔(ابن کثیرعن ابوہریرۃؓ)
ذراغورکریں!قرآن نے کتنے حکیمانہ اندازمیں مسلمانوں کے لیے مرکزاتحادکوبیان کیاہے،حالاں کہ اقوام عالم کے لیے اتحادکامرکزجداگانہ تھا،کسی کے لیے اس کی قومیت ہی اس کامرکزاتحادتھا توکسی کے لیے اس کاملک،کہیں کالوں کے لیے کالاہوناتوگوروں کے لیے گوراہونا،اسی طرح عرب میں قبیلہ مرکزاتحادہواکرتاتھا،قریش کے لیے قریش اوربنوتمیم کے لیے بنوتمیم مرکزاتحادتھا،یعنی ہرجگہ ہرملک اورہرقبیلہ میں نقطۂ اتحادالگ الگ تھا،نسلی اورنسبی رشتوں کے ساتھ وطنی اورلسانی وحدیت مرکزاتحادبناہواتھاکہ ہندی ایک قوم اور عربی ایک قوم،کہیںآبائی رسم ورواج کووحدیت کامرکزبنالیاگیاتھاکہ جولوگ ان رسم ورواج کے اداکرنے کے پابندہوں گے وہی ایک قوم سمجھے جائیں گے بقیہ لوگ اس قوم سے خارج ہوں گے جیسے ہندستان میںآریہ سماج وغیرہ۔غرض کہ کہیں بھی کوئی ایسامرکزاتحادنہیں تھاکہ جس پرپوری قوم ایک اصول کے تحت متحدہوسکے،یہ تمام وہ اصول وضوابط اور اتحادکے مراکزتھے جوانسانوں کے بنائے ہوئے تھے جس کانامکمل ہونافطری تھاایسے وقت میں اللہ تعالیٰ نے رنگ ونسل اورقبیلوں وقوموں میں بٹے انسانوں کومتحدکرنے کے لیے ایک جامع اصول نازل کیااوریہ حکم دیاکہ اے ایمان والو!خوہ تم دنیاکے جس گوشہ کے بھی رہنے والے ہو،تم جس نسل اورنسب کے بھی ہو،نہ تمہاراگوراہونااس بات کی علامت ہے کہ تمہارانقطۂ اتحادالگ ہواورنہ تمہاراکالاہونااس مرکزاتحادمیں شامل ہونے کے لیے مانع ہے،خواہ تم ہندی ہویاعربی،امریکی ہویایورپی،چاہے تم پہاڑکے رہنے والے ہو یا جزیروں میں زندگی بسرکرنے والے،یادرکھو!تمہارے لیے مرکزاتحادواتفاق صرف اورصرف ایک ہے اوروہے اللہ رب العالمین اوراحکم الحاکمین کانازل کیاہوا’’قرآن مجید‘‘ یہ وہی قرآن مجیدہے جوتمام شکوک وشبہات سے پاک،تمام تحریف وتاویل سے محفوظ اورپوری عالم انسانیت کے لیے رہنمائے ہدایت ہے۔تمہارے لیے لازم ہے کہ تم اس قرآن کو مضبوطی سے پکڑلو،اس کے احکام پرعمل کرو،فروعی مسائل میں ہزاراختلاف سہی مجموعی طورپرکلمۂ توحید’’لاالہٰ الااللہ محمدرسول اللہ ‘‘کی بنیادپرپوری دنیامیں ایک امت محمدیہ کے نام پرمتحدہوجاؤ،اسی میں تمہارے لیے فلاح ہے،کامیابی وکامرانی ہے۔
ایک طرف قرآن کے اصول اتحادپرنظرڈالیں،اوردوسری جانب ملت اسلامیہ ہندیہ کے منتشرہوتے شیرازہ پرغورکریں تویہ بات صاف دکھائی دیتی ہے کہ آج ہمارے اندر اختلاف کی وجہ صرف اورصرف قرآن کے اس نظریہ سے منحرف ہوناہے۔ہم ببانگ دہل یہ اعلان کرتے ہیں کہ ہم حامل قرآن وسنت ہیں،ہم محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی امت ہیں، اور ساتھ ہی ہم دین کے داعی اوراس کے محافظ ہیں،پھربھی ہماراشیرازہ منتشرہے،آخرکیوں؟ہم مسلکوں،فرقوں،جماعتوں سے ہوتے ہوئے ٹکڑوں میں بٹ چکے ہیں؟ ہمیں برباد کرنے کے لیے پوری دنیا’’الکفرملۃ واحدۃ‘‘کے اصول پرعمل پیراہواکر ایک پلیٹ فارم پرمتحدہوچکے ہیں،اورہم بربادہونے کے لیے مسلک ومشرب سے آگے بڑھ کر جماعتوں سے الگ ہوکراتنے ٹکڑوں میں بٹ چکے ہیں کہ ایک چھوٹے سے چھوٹے معمولی دشمن کامقابلہ بھی ہمارے لیے ناممکن ہوچکاہے،آخرکیوں؟ان کی کیاوجوہات ہیں؟کبھی ہم نے غورکیاہے اس پر؟نہیں،کیوں کہ ہم نے کبھی اس کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی،بس ہم میں سے ہرشخص کایہ حال ہے کہ اسے پنی فکرہے،ہمارااپناکام ہوگیااورہم چلتے بنے،ہم نے پلٹ کرکبھی یہ نہیں سوچاکہ نہ جانے اس اختلاف و انتشارسے ملت اسلامیہ اورامت محمدیہ کاکتنانقصان ہورہاہے؟کبھی یہ سوچنے کی زحمت ہی گوارہ نہیں کی،ان سب کی وجہ صرف اورصرف ایک ہے اوروہ ہے قرآن وسنت سے دوری ،احکام خداوندی سے روگردانی اورمرکزاتحادسے اپنے ذاتی مقاصدکے لیے راہ فرار اختیار کرنا ہے۔ انا اور خواہشات نفس کی تکمیل کے لیے جماعتوں سے اختلاف پیداکرکے اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجدتعمیرکرنا،عہدے اورمناصب کے لالچ میں جماعتوں کے ٹکڑے کرنایہ سب وہ وجوہات ہیں جس کی بنیادپرآج ملت اسلامیہ ہندیہ کاشیرازہ بکھرچکاہے اوروہ چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم ہوچکی ہے جس کاخمیازہ عام مسلمانوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔ 
بہرکیف!اب بھی وقت ہے کہ ملت اسلامیہ ہندیہ کی نمائندگی کرنے والی ملی تنظیمیںآپس میں سرجوڑکربیٹھیں،اورآپسی فروعی اختلافات کوپس پشت ڈالتے ہوئے ایک نقطۂ اتحاد ’’لاالٰہ الااللہ محمدرسول اللہ ‘’صلی اللہ علیہ وسلم پرجمع ہوجائیں،ہروہ شخص جواس کلمہ کاپڑھنے والاہواسے ایک پلیٹ فارم پرجمع کیاجائے،خواہ مسلک کے اعتبارسے وہ شافعی ہو،مالکی یاحنبلی یاپھرحنفی ہو،سلفی ہویاکسی بھی مسلک ومشرب سے تعلق رکھنے والاہوآخرکلمۂ توحیدکااقرارکرنے والاتوہے ،ان سب کوایک پلیٹ فارم پرجمع کیاجائے اورکم ازکم مشترکہ پروگرام کے تحت ایک ایسی جماعت تشکیل کی جائے کہ جب بھی حکومت وقت کے سامنے مسلمانوں کی نمائندگی کامسئلہ آئے توایسانہ ہوکہ یہ فلاں تنظیم سے تعلق رکھتے ہیں تویہ سنی حلقہ کے نمائندہ شخص ہیں تویہ شیعہ جماعت کی نمائندہ شخصیت ہیں،نہیں بلکہ وہاں صرف اورصرف اس ایک متحدہ ملت اسلامیہ ہندیہ کی نمائندہ جماعت ہو،تبھی ہم بااثرہوسکتے ہیں ورنہ وہی ہوگاجوگذشتہ صدیوں سے ہوتاچلاآیاہے۔یہ کسی بڑے المیہ سے کم نہیں کہ سیاسی جماعتیں جوکہ اخلاقی قدروں سے عاری اوراصول وضوابط سے خالی ہوتی ہیں وہ تو کرسی اقتدارکے حصول کے لیے کم ازکم مشترکہ پروگرام بناکرایک پلیٹ فام پرجمع ہوجاتی ہیں اورامت محمدیہ جس کے پاس ہدایت کے لیے قرآن وسنت موجودہے،مرکزاتحاد’’لاالٰہ الااللہ محمدرسول اللہ‘‘ہے پھربھی متحدنہیں ہیں۔گذشتہ دنوں ہندستان کی ایک مقتدرملی تنظیم مسلم مجلس مشاورت نے ہندستان کی دیگرملی تنظیموں کے لیے اتحادکی ایک اچھی مثال پیش کی ہے،ضرورت اس بات کی ہے کہ دیگروہ تمام تنظیمیں جواس طرح کے آپس کے اختلاف وانتشارکاشکارہوچکی ہیں امت مسلمہ کی بھلائی کے لیے اتحادکی اس مثال کوسامنے رکھتے ہوئے اپنے فروعی اختلافات کوبھلاکرملت اسلامیہ کے وسیع ترمفادات کوپیش نظررکھتے ہوئے آپس میں متحدہوجائیں،اس حقیقت سے وہ بھی باخبرہیں کہ ان کے اس اختلاف کا عام مسلمانوں کو کتنی قیمت چکانی پڑتی ہے،لیکن ذاتی انااورمفادپرستی ،عہدے اورمناصب کی لالچ انہیں متحدہونے سے بازرکھے ہوئی ہے،جبکہ قرآن کایہ اصول ان کے سامنے ہے،ہم ان کے لیے صرف اللہ سے یہی دعاکرسکتے ہیں کہ اللہ انہیں ہدایت کی توفیق نصیب فرمائے۔آمین۔
اس وقت وطن عزیزکی جوصورت حال ہے اس کے پیش نظرہندستان کی تمام چھوٹی بڑی ملی تنظیموں کامتحدہوناناگزیرہے،اس کی بہت ہی آسان شکل ہے،تمام تنظیمیں سماجی وفلاح کاموں کواپنے حسب صلاحیت اوراپنے اپنے اصولوں پررہ کرانجام دیں،لیکن ملت اسلامیہ ہندیہ کے وسیع ترمفادات کے پیش نظروہ آپس میں قومی سطح پراپناایک وفاق تشکیل دیں کہ جس کے بینرتلے وہ ہندستان میں بسنے والے عام مسلمانوں کے مفادکی بات کریں،یہ بڑااہم اورنازک وقت ہے،۲۰۱۴ء کے انتخاب کی آمدآمدہے،اس سے قبل پانچ ریاستوں میں انتخاب ہوناہے،بہت سولیے،کم ازکم اب توخواب غفلت سے بیدارہوجائیں اورصرف اپنے ذاتی مفادات کے لیے نہیں بلکہ پوری ملت اسلامیہ ہندیہ کے وسیع تر مفادات کاخیال رکھتے ہوئے ایک پلیٹ فارم پرمتحدہوجائیں،آپ کایہ اتحادپوری دنیاکے لیے ایک مثال ہوگا،اورآپ صرف ہندستان ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پرمسلمانوں پرہونے ہوالے مظالم کوروکنے میں ایک بڑاکرداراداکرسکیں گے ،ورنہ علامہ اقبال کی زبان میں یہی کہاجاسکتاہے: ؂متحدہوتوبدل ڈالوزمانہ کانظام۔۔۔منتشرہوتومروشورمچاتے کیوں ہو*
*
سکریٹری جنرل: رابطہ صحافت اسلامی ہند
*
رابطہ کے لیے:gsqasmi99@gmail.com

اعلان گمشدہ برائے گمشدگی مسلم قیادت؟؟؟


باسمہ تعالیٰ
اعلان گمشدہ برائے گمشدگی مسلم قیادت؟؟؟
نوائے بصیرت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ غفران ساجدقاسمی
یہ خبرنہایت ہی افسوس کے ساتھ پڑھی جائے گی کہ ہندستانی مسلم قیادت تقریباًنصف صدی سے لاپتہ ہے،جس کی تلاش کے لیے متعددبارایف آئی آردرج کرائی گئی،دنیاکی بڑی بڑی انٹلی جنس سروس کاسہارالیاگیا،لیکن ہنوزکوئی سراغ نہیں لگ سکاہے،کچھ لوگوں کے مطابق آزادی کے بعدایک دوبارایوان حکومت میں دیکھاگیالیکن پھراس کے بعدکوئی خبرنہیں مل پائی ہے،مفادعامہ کوپیش نظررکھتے ہوئے یہ اشتہارجاری کیاجارہاہے کہ جن صاحب کوبھی ’’ہندستانی مسلم قیادت‘‘کے بارے میں کوئی سراغ ملے وہ فوراً خبردیں، خبردینے والے کومعقول معاوضہ بطورانعام دیاجائے گا،اورحوصلہ افزائی کے لیے مسلمانوں کی قیادت کااعزازبھی انہیں بخشا جائے گا۔واضح رہے کہ مسلم قیادت کی تلاش کے لیے دہلی کے چندمخصوص علاقوں کومستثنیٰ کیاجاتاہے،کیوں کہ ہمیں باوثوق ذرائع سے مصدقہ طورپریہ خبرموصول ہوچکی ہے کہ ان علاقوں میں چندنام نہادحضرات اپنے آپ کودنیاکے سامنے مسلم قیادت ہونے کاباورکرارہے ہیں جب کہ وہ سب کے سب جعلی ہیں،ہماری انٹلی جنس سروس نے پوری چھان بین کے بعدجورپورٹ ہمیں بھیجی ہے اس کے مطابق ان حضرات کاحلیہ کسی طوربھی ہماری گم شدہ مسلم قیادت سے نہیں ملتاصرف ہم آوازاورہم شکل ہونے کافائدہ اٹھاکروہ قوم وملت کوبیوقوف بنارہے ہیں،لہٰذاان علاقوں میں جانے کی چنداں ضرورت نہیں ہے اورویسے بھی ان جعلی قیادت کے خلاف ہم نے اللہ کی عدالت میں ایف آئی آردرج کرادی ہے،آج نہ کل اوریقینابہت جلدان کے نام وارنٹ جاری ہونے والاہے،آپ کی سہولت کے لیے ہم ان علاقوں کی نشاندہی کیے دیتے ہیں،ان علاقوں میں اوکھلاکاذاکرنگر،بٹلہ ہاؤس،جوگابائی ،شاہین باغ ،اسی طرح جامع مسجد، مسجدفتحپوری اورآئی ٹی اوکی مسجدعبدالنبی بطورخاص قابل ذکرہیں۔
مسلم قیادت کی گمشدگی کی خبرپڑھتے ہوئے آپ کوشدت سے یہ احساس ستارہاہوگاکہ آخرہم مسلم قیادت کوبغیرکسی علامت کے کہاں اورکیسے تلاش کریں، تولیجیے آپ کی پریشانی ہم حل کیے دیتے ہیں،مسلم قیادت کی تلاشی کے لیے ایک بات کاخیال رکھیں کہ انہیں کسی خاص لباس اورخاص حلیہ کے تناظرمیں تلاش کرنے کی کوشش نہ کریں،وہ کسی بھی لباس اورکسی حلیہ میںآپ کومل سکتے ہیں بس آپ کوان کے اندرمندرجہ ذیل اوصاف کوتلاش کرناہے کہ جوشخص بھی ان اوصاف کاحامل ہوگا یقیناوہی مسلم قیادت کااہل ہوگابالفاظ دیگروہی’’ مسلم قیادت‘‘ ہوگا۔ہوسکتاہے کچھ لوگ آپ کوگمراہ کرنے کی کوشش کریں کہ مسلم قیادت آپ کوصرف اورصرف کرتا پائجامہ ٹوپی اورشیروانی میں ہی مل سکتاہے ؟یہ فلسفہ قطعی طورپرغلط ہے،ممکن ہے کہ وہ اس لباس میں بھی ہوں لیکن موجودہ صورت حال کے پیش نظرصرف اسی لباس میں ملناتقریباناممکن ہے،حقیقت تویہ ہے کہ قیادت کاحق توعوام وخواص نے اس سے بڑھ کریہ کہ خوداللہ تبارک وتعالیٰ نے انہیں ہی سونپاتھالیکن مادیت پرستی اوراپنی دنیاداری کے چکرمیں پھنس کریہ لوگ مسلم قیادت کے فریضہ سے سبکدوش ہوچکے ہیں،لہٰذاکسی غلط فہمی میں شکارہونے کی ضرورت نہیں ہے،لیکن امیدپردنیاقائم ہے ، اگراس کلیہ پرعمل کیاجائے تواس گروہ میں بھی مسلم قیادت کوتلاش کیاجاسکتاہے،ممکن ہے کہ تلاش بسیارکے بعدہندستان کے کسی گوشہ سے دستیاب ہوجائے،ہمیں اللہ کی رحمت پرکامل بھروسہ ہے اوراللہ کی ذات سے یہ بعیدنہیں کہ وہ ہمیں پھراسی گروہ سے کوئی مخلص قائدمہیاکرادے۔
بہرحال!ہم گفتگوکررہے تھے مسلم قیادت کی علامات اوران کے اندرپائی جانے والی خوبیوں اوراعلیٰ اخلاق ومحاسن کا،تواس کے لیے بہترہے کہ ہم رخ کرتے ہیں عہدنبوت کااوراس کے بعدخلافت راشدہ کے دورکاجن کے دورمیں اسلام مشرق سے مغرب تک اورعرب سے افریقہ کے راستہ یورپ تک پہونچا اور اسلامی لشکرکویہ تمام فتوحات جنگ وجدال کے ذریعہ نہیں بلکہ اعلیٰ اخلاق اوربہترین اوصاف وکردارکے ذریعہ نصیب ہوا،اسلام کے ان جیالوں نے اپنے ہرہرعمل سے ثابت کردکھایاکہ وہ پیغمبراسلام اورداعی اعظم کے سچے پیروکاراورجانشیں ہیں،اورسنت نبوی کے اسی پیروی کی وجہ کردنیاان کے قدموں میں گرتی چلی گئی،ہمیں بھی اپنے اندرسے ایسے ہی قائدکی تلاش ہے،جن کے اندرحضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کی سچی جانثاری کے ساتھ صدق ووفااورفراست ایمانی کاعنصرکوٹ کوٹ کر بھرا ہو، حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کی بے نظیرشجاعت موجودہوکہ جس کے نام سے کفارومشرکین دم دباکربھاگنے پرمجبورہوجائیں،حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کاحیااوران کی سخاوت موجودہوکہ ہرموقع سے اپنے جان ومال کے ذریعہ مسلمانوں کاسربلندکرتے رہیں،حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی بہادری ہوکہ جن کے سامنے آنے سے اور مقابلہ کرنے سے بڑے بڑے بہادرگھبراتے ہوں،آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ تودیوانوں کی باتیں ہیں بھلااس دورمیں ایسے لوگ کہاں دستیاب ہوسکتے ہیں، تو میرے بھائی ایسے لوگ تھے اورابھی ان کازمانہ گذرے ہوئے کوئی بہت لمباعرصہ نہیں ہواہے،اوریہ بھی ذہن نشیں کرتے چلیں کہ ہندستان میں اگرآج ہماری کوئی شناخت ہے توانہی بزرگوں کی وجہ سے جنہوں نے اپنی فراست ایمانی،اپنی بے نظیرشجاعت اوراپنی سخاوت وبے نیازی اوربہادری سے ہمیں ہندستان میں سر اٹھا کر جینے کاحق دیا۔
آپ کومعلوم ہے کہ جب ہمارے ہی ملک میں ہمیں ہماراحصہ دینے کے بجائے یہ کہاجاتاہے کہ تم اس ملک کے وفادارنہیں ہوتمہارایہاں کوئی حصہ نہیں ہے، اور تمہیں یہاں رہنے کاکوئی حق نہیں ہے تواس وقت ہماراکیاجواب ہوتاہے ؟ہماراجواب یہی ہوتاہے کہ ہمیں غداروطن کہنے والواپنی بھی تاریخ دیکھواورہماری بھی قربانیوں کو یاد کروکہ اس ملک کی آزادی میں،وطن کی تعمیرمیں ہمارابھی اتناہی حق ہے جتناکہ تمہارابلکہ اس سے بھی بڑھ کراورجتناخون تمہارابہاہے اس ملک کی آزادی کے لیے اس سے کہیں زیادہ ہماراخون بہاہے،ذراغورکریں کہ اس جواب میں جوہم نے ہماراخون بہاہے کالفظ استعمال کیااس سے کیامرادہے،اس سے مراددرحقیقت ہمارے وہی اسلاف اوراکابرہیں جن کے اندرصحابہ کرام کی سیرت کاعکس تھااورجنہوں نے اسلام اورمسلمانوں پرآنے والی ہرمصیبت کاپہلے سے ہی اندازہ کرکے اس کے تدارک کے لیے پیش قدمی شروع کردی،اورپنی فراست ایمانی اوربے نظیرشجاعت کے ذریعہ دشمنوں کی ہرتدبیرکاپانسہ پلٹ دیاان میں ایسے جیالے اورغیورحضرات بھی تھے جنہوں نے دشمنوں سے جنگ کے محاذپربھی لڑائی کی،اوراپنی جان جان آفریں کے سپردکردیں،وہ صرف گفتارکے غازی نہیں تھے بلکہ گفتارسے زیادہ کردارکے غازی تھے،ذراآپ تاریخ اٹھاکردیکھیں توآپ کوپتہ چلے گاکہ آخریہ کون لوگ تھے اورکیاانہوں نے جوتحریک چلائی وہ اپنے عیش وآرام کے لیے تھی؟کیااپنی اولادوں کے مستقبل کوسنوارنے کے لیے تھی؟کیااسمبلی اورپارلیمنٹ کی ممبرشپ حاصل کرنے کے لیے انہوں نے ساری جدوجہدکی؟کیاان کی جدوجہدکامنشاصرف یہ تھاکہ ہماری شہرت ہوجائے اورہمیں کچھ ایوارڈاورتمغہ مل جائے یاکسی بورڈیاکمیٹی کی چیرمین شپ مل جائے؟نہیں ہرگزنہیں ان کی ہرجدوجہداخلاص پرمبنی تھی،ان کے ہرہرعمل میں للہیت تھی اوران سب کاایک ہی مقصدتھا کہ ہرحال میں اسلام سربلندرہے اورمسلم قوم سراٹھاکرجیے،ہندستان میں جدوجہدکی ایک طویل تاریخ ہے،اوراس تاریخ کے سنہرے اوراق پرچندنام ثبت ہیں جوانمٹ ہیں جسے مٹانے کی کسی تاریخ میں ہمت نہیں ہے،ان سب کے قائداورسرخیل شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اورشاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ ہیں اوران کے بعدان کے بالواسطہ اوربلاواسط شاگردوں کی ایک لمبی فہرست ہے جس کااحاطہ کرنااس مختصرمضمون میں ناممکن ہے،صرف چند کے ذکر پر اکتفاکرتاہوں،جن کے نام یہ ہیں:حضرت شاہ اسماعیل شہیدؒ ،حضرت مجددالف ثانیؒ ،حضرت مولاناقاسم نانوتویؒ ، سرسید احمدخاںؒ ،حضرت شیخ الہند مولانا محمودالحسن دیوبندیؒ ،حافظ ضامن شہیدؒ ،مولانارشیداحمدگنگوہیؒ ،مولانامحمدعلی جوہرؒ ،مولاناشوکت علی جوہرؒ ،مولاناحسین احمدمدنیؒ ،مولاناابوالکلام آزادؒ ،شہیداشفاق اللہ خاںؒ ، مولانا حفظ الرحمن سیوہارویؒ وغیرہ،اسی طرح اس فہرست میں بہت سارے نام ایسے ہیں جومختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھتے ہیں اورانہوں نے اپنی بساط کے مطابق مسلم امت کی قیادت کی،اوربے لوث قیادت کی،اوریہ قیادت ہمیں ملک کی آزادی تک نظرآتی ہے جب تک کہ یہ بے لوث اورمخلص خادم قوم وملت بقید حیات رہے، ان کے جانے کے بعدآج ملت اسلامیہ ہندیہ کاشیرازہ بکھرچکاہے،کوئی نہیں ہے ایساجواس ملت کے منتشرشیرازہ کویکجاکرسکے،بلکہ المیہ یہ ہے کہ دوسروں کو اتحادکادرس دینے والے آج خودمنتشرہیں،کوئی الف ہے توکوئی میم،کوئی سین ہے توکوئی شین؟توبھلاکیسے ہوگااس ملت کااتحاداورکون ہوگااس اتحادکاقائد؟؟؟
الغرض!ہمارامقصدہے مسلم قیادت کی تلاش جوکہ اس قوم کی صحیح اوررہنمائی کرسکے،بے لوث اوربے غرض رہنمائی،مذکورہ بالاصفات کے حامل جوافرادآپ کو کہیں نظرآجائیں خداراہمیں مطلع کریں،مطلع کرنے کاآسان طریقہ ہے کہ اس وقت ہندستان میں مسلمان جن پریشانیوں میں مبتلاہے اورجن مصائب وآلام سے دوچارہے ،کوئی پرسان حال نہیں ہے،آپ بناکسی لالچ کے ان مسائل کواٹھائیں اگرآپ اسمبلی یاپارلیمنٹ میں ہیں توبغیرپارٹی کے دباؤ کے خوف یارکنیت چھن جانے کے خوف سے آپ آوازاٹھائیں اگرآپ کی آوازمیں خلوص ہوگا تومیں گارنٹی دیتاہوں کہ اللہ کی مددآپ کے شامل حال ہوگی اورپوری مسلم قوم آپ کے پیچھے نہیں بلکہ آپ کے ساتھ شانہ بہ شانہ کھڑی ہوگی اوریقیناآپ ہی مسلم قیادت کے اہل ہوں گے،ویسے جاتے جاتے ایک خوش خبری دیے جاتاہوں کہ ابھی ہماری انٹلی جنس نے رپورٹ دی ہے کہ گذشتہ دنوں لکھنؤ کے ایک اجلاس میں مسلم قیادت کی ایک ہلکی سی جھلک نظرآئی ہے،جوکہ مسلم نوجوانوں کی بلاوجہ گرفتاری کے خلاف بیداری مہم چلارہے ہیں،ابھی اس کے بارے میں زیادہ کچھ نہیں کہہ سکتاہوں کیوں کہ تفتیش جاری ہے،کہ واقعتا وہ اپنی اس تحریک میں مخلص ہیںیا؟؟؟
*
سکریٹری جنرل: رابطہ صحافت اسلامی ہند
رابطہ کے لیے:gsqasmi99@gmail.com

Wednesday, October 30, 2013

تعلیم نسواں: اہمیت ، ضرورت اور طریقۂ کار


                                                                                           باسمہ تعالیٰ
                                                                            تعلیم نسواں؛اہمیت،ضرورت اورطریقۂ کار

                                                                                                                                                            غفران ساجدقاسمی                                                                                                                                    جنرل سکریٹری:رابطہ صحافت اسلامی ہند
حرف اول:
مغرب سے جنم لینے والے ’’آزادئ نسواں‘‘اور’’حقوق نسواں‘‘جیسے دل فریب اورپُرکشش نعروں کی طرح گذشتہ برسوں میں’’تعلیم نسواں‘‘کے خوش نمانعرہ نے بھی کافی ترقی کی ہے اورحالیہ چندبرسوں میں برصغیرایشیاء بالخصوص ہندستان کے مختلف علاقوں میں’’تعلیم نسواں‘‘کے اسی خوش کن نعرہ کے نتیجہ میں بڑے پیمانے پرمدارس نسواں کا وجود ہوا اور روز بروزیہ تعدادبڑھتی ہی جارہی ہے۔تعلیم،یاتعلیم نسواں بہرصورت ضروری ہے،ضروری ہی نہیں بلکہ اسلام نے اسے فرض قراردیاہے۔یہ مذہب اسلام کاہی امتیازی وصف ہے کہ دیگرتمام ادیان ومذاہب کے مقابلہ میں اس نے علم کے حصول پرزیادہ زوردیاہے۔اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے محبوب اورآخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم پرجوسب سے پہلی وحی نازل کی اس میں بھی’’اقراء‘‘کے ذریعہ پڑھنے کی ہی تعلیم دی اورعلم کی اسی اہمیت کے پیش نظرنبی امی محمدعربی صلی اللہ علیہ وسلم نے’’طلب العلم فریضۃ علیٰ کل مسلم‘‘(متفق علیہ) ارشاد فرما کر ہر مسلمان مردوعورت پرعلم کاحصول فرض قراردیا۔
دنیاکی تاریخ اورقوانین عالم سے واقفیت رکھنے والاہرشخص بخوبی جانتاہے کہ دنیاکی سب سے عظیم طاقت(Super Power)کہلانے والی تنظیم’’اقوام متحدہ(UNO)نے اپنے منشورمیں علم حاصل کرنے کوانسان کابنیادی حق قراردیاہے،جب کہ اسلام نے علم حاصل کرنے کوفرض قراردیاہے۔اورحق اورفرض میں واضح فرق یہ ہے کہ حق نہ لینے پرزورزبردستی اورکسی قسم کامواخذہ نہیں ہے جب کہ اس کے برعکس فرض کی عدم ادائے گی کی صورت میں انسان سزاکامستحق ہوتاہے۔اس سے بھی پتہ چلتاہے کہ حصول علم کی سب سے زیادہ اہمیت،فضیلت اورتاکیدمذہب اسلام میں ہی ہے۔
یہ ایک ناقابل انکارحقیقت ہے کہ علم حاصل کرنے کے سلسلے میں مذہب اسلام کی تاکیدمردوزن کے لیے یکساں ہے۔غورکرنے کامقام ہے کہ بھلاوہ مذہب جس نے دنیائے انسانیت کواخوت وبھائی چارگی کاسبق سکھایا،ظلم وتفریق کے دلدل میں دھنسی ہوئی انسانیت کوعدل ومساوات کادرس دیا،ذلیل ترین اورحقیرشئی سمجھی جانے والی صنف نازک کوسماج اورمعاشرہ میں باوقارمقام عطاکیا۔۔۔بھلاوہ مذہب معاشرہ اورسماج کی نصف آبادی ۔۔۔عورت۔۔۔کوتعلیم جیسی عظیم نعمت سے کیسے محروم رکھ سکتاتھا۔حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے بلاتفریق جنس اورامیروغریب کے حصول علم کی تاکیدکرتے ہوئے ارشادفرمایا:’’طلب العلم فریضۃ علیٰ کلم مسلم‘‘(متفق علیہ)اوربرملااعلان فرمادیاکہ علم حاصل کرناہرمسلمان مردوعورت پرفرض ہے۔علم کسی کی جاگیرنہیں ہے۔ایسانہیں ہے کہ صرف مردوں کوہی علم حاصل کرنے کاحق ہے اورعورتیں اس حق سے محروم ہیں،اسی طرح صرف اُمراء اوررؤساء علم کواپنے گھرکی لونڈی بناکررکھیں گے اورغریب علم کے لیے ترسیں گے بلکہ اسلام نے یہ اعلان کردیاکہ ہرشخص اپنی حیثیت اوراستطاعت کے بقدرعلم حاصل کرے گااورضرورت کے بقدرعلم حاصل کرناہرمسلمان مردوعورت کے لیے فرض قراردیاگیا۔اوریہ بات واضح ہے کہ فرائض کی عدم ادائے گی کی صورت میں انسان سزاکامستحق ہوتاہے۔اس تفصیل سے ایک بات توواضح طورپرسمجھ میںآتی ہے کہ علم کاحاصل کرناہرمسلمان مردوعورت پرفرض ہے،اورمردوں کاعلم حاصل کرنا،اس کے لیے دوردرازمقام کاسفرکرناتو روایتوں اور اسلاف واکابرکے واقعات سے ثابت ہے،لیکن عورتوں کے علم حاصل کرنے کاطریقہ کیاہواوراس کے لیے نصاب تعلیم کیاہو،اوروہ کتناعلم اورکن کن لوگوں سے علم حاصل کرے، زیرنظرمضمون کاموضوع بحث یہی ہے۔
موجودہ دورمیں تعلیم نسواں کے علمبرداروں نے بڑے پیمانے پرمدارس نسواں قائم کیے ہیں اوران مدارس نسواں میں سے زیادہ ترتواقامتی ادارے ہیں جہاں طالبات کے قیام وطعام کامکمل نظم ہے اوران کے ذمہ داران بھی عموماًمردحضرات ہی ہیں،اوربہت سارے غیراقامتی مدارس نسواں بھی ہیں،لیکن دونوں طرح کے مدارس نسواں میں جوایک باتقدرمشترک ہے وہ دونوں اداروں کے ذمہ داران کامردہوناجوکہ اپنے آپ میں ایک لمحۂ فکریہ ہے۔
مناسب معلوم ہوتاہے کہ اصل گفتگوشروع کرنے سے قبل مختصراًاسلام سے قبل عورتوں کی کیاحالت تھی اوردیگرادیان ومذاہب میں عورتوں کے ساتھ کیساسلوک روارکھاجاتاتھا،اورتعلیم وتعلم سے متعلق دیگرادیان ومذاہب کاکیانظریہ تھااوراسلام میں علم کاکیامقام ہے ،اس پرروشنی ڈالی جائے۔
اسلام سے قبل عورت کامقام:
تمدن انسانی کی پوری تاریخ کابنظرغائرمطالعہ کیاجائے تویہ بات آفتاب نیم روزکی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ عورت کاوجوددنیامیں ذلت وشرم اورگناہ کاوجودتھا۔بیٹی کی پیدائش باپ کے لیے بلکہ سارے کنبے کے لیے سخت عیب اورموجب ننگ وعارتھی۔
بدھ مت میں عورت:
’’پانی کے اندرمچھلی کی طرح ناقابل فہم عادتوں کی طرح عورت کی فطرت بھی ہے،اس کے پاس چوروں کی طرح متعددحربے ہیں اورسچ کااس کے پاس گذرنہیں۔‘‘(انسائیکلوپیڈیاآف مذہب واخلاق۔۲۷۱،بحوالہ اسلام میں عورت کادرجہ اوراس کامقام:۳۴)
ہندودھرم میں عورت:
برہمن ازم میں شادی کوبڑی اہمیت حاصل ہے،ہرشخص کوشادی کرناچاہیے،لیکن منو(منوسمرتی مذہبی قانون کی کتاب کانام)کے قوانین کی روسے ’’شوہربیوی کاسرتاج ہے۔اسے اپنے شوہرکوناراض کرنے والاکوئی کام نہیں کرناچاہیے،حتیٰ کہ وہ اگردوسری عورتوں سے تعلقات رکھے یامرجائے تب بھی کسی دوسرے مردکانام اپنی زبان پرنہ لائے۔اگروہ نکاح ثانی کرتی ہے تووہ سورگ(جنت)سے محروم رہے گی جس میں اس کاپہلاشوہررہتاہے،زوجہ کے غیروفادارہونے کی صورت میں اسے انتہائی کڑی سزادی جانی چاہیے،عورت کبھی بھی آزادنہیں ہوسکتی،وہ ترکہ نہیں پاسکتی،شوہرکے مرنے پراپنے سب سے بڑے بیٹے کے تحت زندگی گذارنی ہوگی،شوہراپنی بیوی کولاٹھی سے بھی پیٹ سکتاہے۔(ایضاً)بلکہ ویدوں کے مطابق عورتوں کوویدکی تعلیم کی اجازت بھی نہیں تھی۔‘‘(حوالہ سابق)
چین میں عورت:
مسٹررے اسٹریجی چین میں عورت کی حیثیت کے بارے میں لکھتاہے:’’مشرق بعیدیعنی چین میں حالات اس سے بہترنہیں تھے،چھوٹی لڑکیوں کے پیروں کوکاٹھ مارنے کی رسم کامقصدیہ تھاکہ انہیں بے بس اورنازک رکھاجائے،یہ رسم اگرچہ اعلیٰ اورمال دارطبقات میں رائج تھی لیکن اس سے ’’آسمانی حکومت‘‘کے دورمیں عورتوں کی حالت پرروشنی پڑتی ہے۔‘‘(یونیورسل ہسٹری آف دی ورلڈ:۱؍۳۳۸،ایضاً)
انگلستان(یورپ) میں عورت:
انگلستان میں اسے ہرقسم کے شہری حقوق سے محروم رکھاگیاتھا،تعلیم کے دروازے اس پربندتھے،صرف چھوٹے درجہ کی مزدوری کے علاوہ کوئی کام نہیں کرسکتی تھی اورشادی کے وقت اسے اپنی ساری املاک سے دستبردارہوناپڑتاتھا۔۔۔۔۔۔یہ کہاجاسکتاہے کہ قرون وسطیٰ سے انیسویں صدی تک عورت کوجودرجہ دیاگیاتھااس سے کسی بہتری کی امیدنہیں کی جاسکتی تھی۔(تہذیب وتمدن پراسلام کے اثرات واحسانات،بحوالہ سابق)
ہندوستانی سماج میں عورت:
برہمنی زمانہ اورتہذیب میں عورت کاوہ درجہ نہیں رہاتھاجوویدی زمانہ میں تھا۔منوکے قانون میں(بقول ڈاکٹرلی بان)عورت ہمیشہ کمزوراوربے وفاسمجھی گئی ہے اوراس کاذکرہمیشہ حقارت کے ساتھ آیاہے۔شوہرمرجاتاتوعورت گویاجیتے جی مرجاتی اورزندہ درگورہوجاتی،وہ کبھی دوسری شادی نہ کرسکتی،اس کی قسمت میں طعن وتشنیع اورذلت وتحقیرکے سواکچھ نہ ہوتا،بیوہ ہونے کے بعداپنے متوفی شوہرکے گھرلونڈی اوردیوروں کی خادمہ بن کررہناپڑتا،اکثربیوائیں اپنے شوہروں کے ساتھ ستی ہوجاتیں۔ڈاکٹرلی بان لکھتاہے:’’بیواؤں کواپنے شوہروں کی لاش کے ساتھ جلانے کاذکرمنوشاسترمیں نہیں ہے لیکن معلوم ہوتاہے کہ یہ رسم ہندوستان میں عام ہوچکی تھی کیوں کہ یونانی مؤرخین نے اس کاذکرکیاہے۔‘‘(تمدن ہند:۲۳۸)
عورت اسلام کے سایہ میں:
اسلام کے آنے کے بعدعورتوں کی حالت میں جوتبدیلی رونماہوئی اس کاذکرکرتے ہوئے مولاناسیدابوالاعلیٰ مودودیؒ نے بڑااچھانقشہ کھینچاہے۔مولانالکھتے ہیں:’’یہی وہ حالات تھے کہ مکہ کے پہاڑوں سے آفتاب کی پُرنورکرنیں پورے جاہ وجلال کے ساتھ نمودارہوتی ہیں،اورنہ صرف قانونی اورعملی حیثیت سے بلکہ ذہنی حیثیت سے بھی اسلام ایک عظیم انقلاب برپاکردیتاہے۔اسلام ہی نے عورت اورمرددونوں کوبدلاہے۔عورت کی عزت اوراس کے حق کاتخیل ہی انسان کے دماغ میں اسلام کاپیداکیاہواہے۔آج حقوق نسواں،تعلیم نسواں اوربیداری اناث کے جوبلندبانگ نعرے پردہ سماع سے ٹکرارہے ہیںیہ اسی انقلاب انگیزصداکی بازگشت ہے جومحمدعربی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے بلندہوئی تھی اورجس نے افکارانسانی کے رخ کادھاراپھیردیا،وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں جنہوں نے دنیاکوبتایاکہ عورت بھی ویسی ہی انسان ہے جیسامرد۔‘‘(پردہ:۱۸۹)
اسی طرح اسلام میں عورتوں کامقام اوراس کی اہمیت اس حدیث سے بھی اجاگرہوتی ہے جس میں حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کے لیے دوہرے اجرکی بشارت دی ہے جس نے اپنی باندی کی بہترتعلیم وتربیت کی پھراسے آزادکیااوراس سے شادی کرلی۔(بخاری:۱؍۲۰)غورکرنے کامقام ہے کہ جومذہب ایک باندی کی تعلیم وتربیت پردوہرے اجرکی خوش خبری دیتاہو،بھلااس مذہب میں اپنی بیٹی اوربہن کی تعلیم وتربیت پرکس قدراجروثواب ہوگا۔
دیگرادیان ومذاہب میں عورتوں کی حیثیت اوراسلام نے عورتوں کوجوعزت ومقام عطاکیااس کے تقابلی مطالعہ کے بعدیہ بھی ملاحظہ کرتے چلیں کہ اسلام میں علم کی کیااہمیت ہے اوردیگرادیان ومذاہب میں تعلیم وتعلم کے بارے میں کیاتصورپایاجاتاہے۔
علم اسلام کی نظرمیں:
اسلام نے علم کی اہمیت اوراس کی قدروقیمت پرمکمل طورپرروشنی ڈالی ہے۔اس نے تعلیم کوانسان کی،خواہ مردہویاعورت بہت سی ضرورتوں میں سے ایک ضرورت ہی نہیں بلکہ تمام انسانوں کی اولین اوربنیادی ضرورت قراردیاہے۔اسلام کے علاوہ دنیاکاکوئی مذہب اورنظریہ ایسانہیں ہے جس نے تعلیم کوتمام انسانوں کی ایک بنیادی ضرورت قراردیاہو،حتیٰ کہ یونان اورچین بھی جواپنی علمی ترقیات کی وجہ سے غیرمعمولی شہرت کے حامل ہیں،اس کے قائل نہ تھے ،یہ اسلام ہی ہے جس نے عام شہریوں کی بھی تعلیم کاتصورپیش کیااوردینی تعلیم کے ساتھ عصری علوم کے حصول کوبھی جائزقراردیا۔(اسلام اورعلم:۳)
علم اوردیگرادیان ومذاہب:
اسلام کے علاوہ دوسرے مذاہب میں علم توایک صرف محدودمذہبی طبقہ میں منحصرتھی،’’ہندودھرم‘‘کی روسے شودروں کے لیے’’ویدوں‘‘شلوک سننابھی ناجائزتھااوران کے لیے سزایہ تھی کہ ان کے کانوں میں گرم سیسہ ڈالاجاتاتھا۔عیسائی مذہب میں فکری آزادی پراتنی پابندی تھی کہ ان آدمیوں کوسخت سزادی جاتی تھیں جوکوئی نیاعلمی نظریہ پیش کرتے تھے،عیسائی علماء اتنے تنگ نظرتھے کہ کسی بھی نئی بات کوبرداشت نہیں کرسکتے تھے،ان کی کوتاہ نظری کی وجہ سے بہت سے مفکربے دین اوربہت سارے حکماء جادوگرقراردیے گئے جس کانتیجہ یہ نکلاکہ ان کے یہاں ذہنی ارتقاء بالکل رک گئی۔(اسلام اورعلم:۳)
اسپین میں جب مسلمانوں کی حکومت قائم ہوگئی اورملک کے گوشہ گوشہ میں مدارس قائم ہوئے تویورپی طالب علموں کاتانتابندھ گیا۔وہ یہاںآکرتعلیم حاصل کرتے اوراپنے ملک واپس جاکراس کی تبلیغ وترویج کرتے،گویاکہ یہ صرف اسلام کی برکت اورمسلمانوں کی فراخ دلی کانتیجہ تھاکہ یورپ میں علم وحکمت کی روشنی پھیلی۔خودیورپ کے مؤرخین اورمفکرین اس کے معترف ہیں۔رابرٹ،بریفالٹ اورڈاکٹرموسیولیبانی نے اس اعتراف کووضاحت سے لکھاہے۔(اسلام اورعلم:۳)
مذکورہ بالاسطورسے یہ بات روزروشن کی طرح عیاں ہوگئی کہ جس طرح دیگرادیان ومذاہب میں عورتوں کی کوئی حیثیت نہ تھی،وہ سماج اورمعاشرہ کی ذلیل ترین مخلوق سمجھی جاتی تھی،مردوں کے لیے اس کی حیثیت صرف ایک کھلونااوردل کوبہلانے والی شئی سے زیادہ نہ تھی،اسی طرح دیگرادیان ومذاہب میں علم بھی ایک خاص طبقہ کے لیے مخصوص تھا،عورتوں کاحصول علم توبہت دورکی بات ہے خودشودرقوموں کے لیے مطلقاًعلم ایک شجرممنوعہ کی حیثیت رکھتی تھی۔یہ اسلام کی ہی برکت ہے کہ جہاں وہ ایک طرف سماج کی دبی کچلی معصوم اورمظلوم مخلوق کوباعزت مقام عطاکیاوہیں دوسری طرف اسلام نے علم کی اہمیت وفضیلت کواجاگرکرتے ہوئے ببانگ دہل اعلان کردیاکہ علم کاحاصل کرناہرمسلمان مردوعورت پرفرض ہے۔(الحدیث)اوراس اعلان کے ساتھ ہی اسلام نے عورتوں کومردوں کے مساوی حقوق عطاکرنے کے ساتھ ساتھ اسے علم حاصل کرنے کامجازاوربرابرکاحق داربتایا۔
مندرجہ بالاسطورکوپڑھیں اورغورکریں کہ اس روئے زمین پراسلام کے علاوہ کوئی بھی ایسامذہب ہے جس نے سماج کی نصف آبادی کواتنے واضح اورمساویانہ حقوق عطاکیے ہوں،اورساتھ ہی حصول علم کے سلسلہ میں سماج کے دونوں صنف کویکساں حقوق عطاکیے ہوں۔آپ دنیاکی تاریخ پڑھ ڈالیں،مذاہب کاتقابلی مطالعہ کریں توآپ کومعلوم ہوگاکہ اسلام کے علاوہ کسی مذہب اورنہ ہی کسی انسانی قانون نے عورتوں کواتنے مساوی حقوق دیے ہیں۔آزادئ نسواں اورحقوق نسواں کے نام نہادعلمبرداروں نے عورتوں کوآزادی اورحقوق دلانے کے نام پراسے بازاروں اورمحفلوں کی زینت بنادیااورانہوں نے یہ ڈھنڈوراپیٹاکہ اسلام عورتوں کی آزادی کامخالف اورعورتوں کے حقوق کوغصب کرنے والا مذہب ہے اورعورتوں کوصحیح حق تومغرب نے دیاہے۔لیکن اہل خرداوراہل دانش بخوبی واقف ہیںآزادی نسواں اورحقوق نسواں کی آڑمیں عورتوں کاکس قدراستحصال کیاجارہاہے۔آزادی نسواں اورحقوق نسواں کی آڑمیں مغرب کاخاندانی نظام تباہ ہوچکاہے اوراہل مغرب بھی اس خوشنمافریب سے باہرآنے کوپرتول رہے ہیں اوردنیابھی فطرت کی طرف لوٹنے پرمجبورہے۔
ایک ایسے وقت اورایسے ماحول میں جب کہ معاشرہ کی نصف آبادی خوداپنی حیثیت اوراپنے مقام سے ناآشناہے جواسے اسلام نے عطاکیاہے،ضرورت ہے کہ وہ اپنے مقام کوجانے،اپنی حیثیت کوپہچانے تاکہ وہ مغرب کے خوشنمانعروں سے متاثرنہ ہوسکے اوراسلام اورمغرب کوحقیقت کی آنکھ سے دیکھ سکے۔اوریہ تبھی ممکن ہے جب عورت تعلیم یافتہ ہوگی اوراپنے حقوق سے واقف ہوگی اوراس واقفیت کے لیے اسے زیورتعلیم سے آراستہ کرنے کی ضرورت ہے۔اوریہ ذمہ داری اسلام نے مردوں کوسونپ دی ہے جوکہ عورت کے مقابلہ طاقتورصنف ہے۔اب یہ مستقل بحث ہے کہ تعلیم کاطریقۂ کارہو؟
لڑکیوں کی تعلیم اورطریقۂ کار:
لڑکیوں کی تعلیم ضروری ہے اس سے کوئی انکارنہیں کرسکتا،لیکن تعلیم کاطریقۂ کارکیاہو؟آیاوہی طریقہ اپنایاجائے جولڑکوں کی تعلیم کے لیے رائج ہے یااسلاف کے طریقوں میں غوروخوض کرکے بہترطریقۂ کارتلاش کیاجائے۔اس سلسلہ میں جب ماضی کے دریچوں میں جھانک کرتعلیم نسواں پرغورکرتے ہیں توایسی کوئی مثال نظرنہیںآتی ہے، البتہ دورنبوت کے ایک واقعہ سے اس سلسلہ میں کچھ رہنمائی ضرورملتی ہے کہ حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کی تعلیم وتربیت کے لیے ایک علاحدہ دن مقرر فرمایا تھا۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکرہے کہ جس طرح مردوں کے لیے مسجدنبوی میں صفہ کاتذکرہ ملتاہے عورتوں کے لیے اس طرح کے کسی صفہ یاکسی خاص مقام کاتذکرہ دورنبوی میں نظر نہیں آتا۔اسی طرح حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے بعدخلافت راشدہ کے زمانے میں اوراس کے بعدبھی بے شمارمحدثات،فقیہات،ادیبہ اورشاعرات کاذکرتوملتاہے لیکن باضابطہ کسی مدرسہ نسواں کاکوئی ادنیٰ ساذکربھی نہیں ملتا،اورنہ ہی خواتین کاحصول علم کے لیے دوردرازمقام کے سفرکاکوئی تذکرہ تاریخ وسیرکی کتابوں میں دستیاب ہے۔(کم ازکم راقم السطورکی نظروں سے ایساکوئی واقعہ نہیں گذرا)جب کہ ایسانہیں ہے کہ اس دورمیں باکمال خواتین پیدانہیں ہوئیں بلکہ ہرزمانہ اورہرعہدمیں ہرفن میں ممتازخواتین پیداہوئیں جنہوں نے اپنے علم وفن سے عالم انسانیت کوحیران وششدرکردیاہے۔اوراپنے علم وعمل سے ایک دنیاکوفیض پہونچایاہے جس کی مثال کم ازکم موجودہ دورمیں تونہیں ملتی۔لیکن ساتھ ہی یہ بھی حیرت کی بات ہے کہ دورنبوت سے لے کرہندوستان کی مغلیہ حکومت تک کسی بھی زمانہ میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے باضابطہ کسی مدرسۂ نسواں کاوجودتاریخ میں نہیں ملتاہے۔اس تذکرہ سے یہ مطلب نہ نکالاجائے کہ لڑکیوں کی تعلیم ضروری نہیں ہے یاموجودہ طرزپرچلائے جارہے مدارس نسواں اچھی چیزنہیں ہیں بلکہ وقت اورحالات کے لحاظ سے یہ ضروری ہے ،لیکن موجودہ مدارس نسواں کے بانیوں اورمنتظموں کے پیش نظراسلاف کااُسوہ ضرورہوناچاہیے۔اس سلسلہ میں علمائے دیوبندکے سرخیل اورمجددوقت حکیم الامت حضرت مولانااشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کاتعلیم نسواں اورمدارس نسواں کے سلسلہ میں جوخیالات تھے اورانہوں نے جوطریقۂ کاراپنایااس کاذکرمدارس نسواں کے منتظمین کے لیے مشعل راہ ثابت ہوگا۔حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے تھانہ بھون کے مدرسہ نسواں کاذکرکرتے ہوئے تحریرفرمایاہے:
’’میں نے بھی تھانہ بھون میں ایک لڑکیوں کامدرسہ قائم کیاہے،لڑکیاں معلمہ کے گھرمیں جمع ہوجاتی ہیں(وہی گھرگویالڑکیوں کامدرسہ ہے)اورمیں ان کی خدمت کردیتاہوں،لیکن میں نے یہاں تک احتیاط کررکھی ہے کہ میں خودکسی لڑکی کوبھیجنے کی ترغیب نہیں دیتایہ انہی معلمہ سے کہہ دیاہے کہ سب تمہاراکام ہے تم جتنی لڑکیوں کوبلاؤگی تنخواہ زیادہ ملے گی،اس مدرسہ میں ماہانہ امتحان بھی ہوتاہے،سولڑکیاں کبھی امتحان دینے کے لیے گھرپرچلی آتی ہیں اورمیری اہل خانہ یعنی بیویاںیامیرے خاندان کی کوئی بی بی ان کاامتحان لے لیتی ہیں اورکبھی لڑکیوں کونہیں بلایاجاتابلکہ ممتحنہ وہیں چلی جاتی ہیں اورامتحان لے لیتی ہیں اورصرف امتحان کانتیجہ میرے سامنے پیش ہوجاتاہے اورباقی ان پرمیرانہ کوئی اثراورنہ دخل۔ نمبر ممتحنہ دیتی ہیں،ان نمبروں پرانعام میں تجویزکرتاہوں۔الحمدللہ اس طرزپرمدرسہ برابرچلاجارہاہے اورایک بات بھی کبھی خرابی کی نہیں ہوئی(الغرض)لڑکیوں کی تعلیم کاانتظام یا تو اس طورپرہوکہ لڑکیاجمع نہ ہوں اپنے اپنے گھروںیامحلہ کی بیبیوں سے تعلیم پائیں،لیکن آج کل یہ عادتاًبہت مشکل ہے۔یااگرایک جگہ جمع ہوں توپھریہ انتظام ہوکہ مردان سے سابقہ نہ رکھیں اوراپنی مستورات سے نگرانی کروائیں،ان سے خودبات چیت بھی نہ کریں۔

دوسرے اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ سکریٹری(ناظم)بضرورت متقی بن جائے،چاہے وہ آزادخیال ہومگراسے مولوی کی شکل بناناچاہیے تاکہ معلمہ پراس کے تقویٰ کااثرپڑے۔
میری دانست میں تعلیم نسواں کے یہ اصول ہیں،آگے اورلوگ اپنے تجربوں سے کام لیں،کچھ میرے خیالات کی تقلیدضروری نہیں۔(اصلاح التیافی حقوق وفرائض:۴۰۱۔۴۰۴)
مقام فکر:
حکیم الامت حضرت تھانویؒ کاطریقۂ کاردیکھنے کے بعداندازہ ہوتاہے کہ حضرت تھانویؒ جیساحکیم الامت،مدبر،مصلح اوراپنے وقت کے مجددجہاں ایک طرف عورتوں کی تعلیم کوضروری سمجھتے ہیں وہیں لڑکیوں کی تعلیم کے سلسلہ میں حددرجہ احتیاط سے کام لیتے تھے کہ احتیاطاًکوئی ایساگوشہ کمزورنہ ہوجس سے کسی فتنہ کے درآنے کاخدشہ ہو،حضرت تھانویؒ نے اپنے عملhttp://cdncache-a.akamaihd.net/items/it/img/arrow-10x10.png سے آنے والی نسل کویہ پیغام دیاہے کہ بہرحال کام ہوناہے،لڑکیاں جوہمارے معاشرہ کی نصف آبادی ہیں انہیں زیورتعلیم سے آراستہ کرناہے لیکن اس قدراحتیاط برتنی ہے کہ یہ تعلیم ان کے لیے ہراعتبارسے مفیدہومضرنہ ہو،اوروہ دین کاعلم حاصل کرنے کے بعدایسی خاتون بنیں جوپورے معاشرہ کی اصلاح کاذریعہ ہونہ کہ اس کے عمل اورکردارسے فسادپھیلے۔حضرت تھانویؒ کامشورہ منتظمین کے لیے مشعل راہ کی حیثیت رکھتاہے کہ آپ چاہے جتنے بھی آزادخیال ہوں لیکن معلمات اورطالبات پراچھااثرڈالنے کے لیے بضرورت متقی بن جائیں تاکہ معلمات اورطالبات انہیں اپنااسوہ بنالیں اوران کے کرداربھی اچھے ہوں۔یہ مشورہ موجودہ دورکے تمام مدارس نسواں کے منتظمین کے لیے سنگ میل کادرجہ رکھتاہے۔
حرف آخر:
گفتگوکاماحصل یہ ہے کہ جس طرح عورتوں کواسلام نے باعزت مقام بخشااسی طرح عورتوں پرعلم کے حصول کوبھی فرض قراردیا۔گرچہ زمانہ ماضی اورعہداسلامی میں کسی مدرسہ نسواں کاوجودنہیں ملتالیکن حالات اورزمانہ کی تبدیلی کے پیش نظرمدارس نسواں کاقیام ناگزیرہے،البتہ مدارس نسواں کے منتظمین کوچاہیے کہ وہ حکیم الامت حضرت تھانویؒ کے اصول پرسختی سے کاربندرہتے ہوئے ادارہ کوچلائیں،انشاء اللہ اس کافائدہ عام ہوگااورخلق کثیرکواس سے نفع پہونچے گا اوران اداروں سے ایسی باکردارخواتین پیداہوں گی جن سے دنیاکے گوشہ گوشہ میں اسلام پھیلے گااوران خواتین کے بطن سے مبلغین اسلام اورمجاہدین اسلام جنم لیں گے۔اللہ ان اداروں کے فیض کوعام کرے۔آمین 
وبااللہ التوفیق وھوالمستعان۔۔۔وماعلیناالاالبلاغ