Monday, November 4, 2013

متحد ہوتو بدل ڈالو زمانے کانظام!!!


                                                                                         باسمہ تعالیٰ
                                                                          
متحدہوتوبدل ڈالوزمانے کانظام!
نوائے بصیرت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔غفران ساجدقاسمی

اتحادواتفاق ،بھائی چارگی اورآپسی میل محبت خیروبرکت اوربھلائی کاذریعہ ہے۔بچپن سے ہم یہ کہانی سنتے آرہے ہیں کہ ایک لاٹھی کو کوئی بھی توڑسکتاہے لیکن جب ایک جگہ لاٹھیوں کاگٹھرہوجس میں بہت ساری لاٹھیاں بندھی ہوں توپھراسے توڑنامشکل ہی نہیں ناممکن ہوجاتاہے۔یہ کہانی عموماہراس گھرمیں بچوں کوسنائی جاتی ہے جہاں ایک ماں باپ کے کئی نرینہ اولادہوتے ہیں،وہ انہیں بچپن میں اس طرح کے واقعات سناکراتحادواتفاق کی اہمیت کواجاگرکرتے ہیں تاکہ بڑے ہوکریہ آپس میں متحدرہ سکیں،اوردنیاکی کوئی بھی شرپسند طاقت ان کے اتحادکوپارہ پارہ نہ کرسکے،وہ لوگ جواپنے والدین کے اطاعت شعاراوران کی باتوں کواپنے لیے مشعل راہ سمجھ کرپوری زندگی ان کے بتائے ہوئے اصولوں پرعمل کرتے رہتے ہیں دیکھایہی گیاہے کہ وہ ہمیشہ آپس میں اتحادواتفاق کامظاہرہ کرتے ہیں اورکوئی بھی بیرونی طاقت ان کے اس اتحادکوپارہ پارہ نہیں کرپاتی ہے،ان کی آپسی محبت اوربھائی چارگی دنیاوالوں کے لیے ایک مثال بن جاتی ہے اوروہ اپنے اس اتحادواتفاق کے ذریعہ بڑی بڑی شیطانی طاقتوں کومات دیدیتے ہیں لیکن اس کے برعکس جولوگ اتحاد و اتفاق کے بجائے اختلاف وانتشارمیں زندگی گذارتے ہیں انہیں کوئی بھی شخص بڑی آسانی سے زیرکردیتاہے،ایسی صورت میں وہ اپنے آپ کوبچانے کے لیے کسی بڑی طاقت کے زیرسایہ چلاجاتاہے جواسے انجانے خوف میں مبتلاکرکے اپنے مفادات کے حصول کے لیے پوری زندگی اس کااستحصال کرتارہتاہے اوروہ بھی بلاچوں وچرااس کے دام فریب میں پھنس کربآسانی شکارہوتارہتاہے۔
اتحادواتفاق ہرشخص کے لیے محبوب ہے،خواہ وہ دنیاکے کسی خطہ،کسی قوم اورکسی ملک سے تعلق رکھنے والاہو،اسی طرح ہرایک کے نزدیک اتحادواتفاق کامرکزبھی الگ الگ ہے،کسی کے لیے ایک ملک کاہونامرکزاتحادہے توکسی کے لیے ایک قوم یاایک قبیلہ سے ہونامرکزاتحادکی وجہ بنتی ہے،لیکن مسلمانوں کے لیے مرکزاتحادصرف ایک ہے اوروہ ہے کلمۂ توحید ’’لاالہٰ الااللہ محمدرسول اللہ‘‘،اتحاداتفاق کی اسی اہمیت کوواضح کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کوصریح لفظوں میں حکم دیاکہ’’اللہ کی رسی کومضبوطی سے تھام لواورآپس میں اختلاف مت پیداکرو‘‘(آل عمران:۱۰۳)آیت مذکورمیں رسی کے لیے اللہ نے لفظ ’حبل‘کااستعمال فرمایاہے اوراس ’حبل‘کی تفسیرکے بارے میں حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کایہ ارشادنقل فرمایاہے کہ ’حبل‘سے مراد’’قرآن مجید‘‘ہے،یعنی اللہ نے مسلمانوں کوحکم دیاکہ وہ آپسی اتحادواتفاق کے لیے قرآن کو اپنا نقطۂ اتحادبنالیں اوراس کے احکام پرمضبوطی سے عمل پیرارہیں اورآپس میں پھوٹ نہ ڈالیں،گویاقرآن ہمارے لیے ’’مرکزاتحاد‘‘ہے،جس کاحکم بذات خوداللہ جل شانہ‘ نے دیا ہے،جس کی تشریح اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح فرمائی ہے کہ:اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے تین چیزوں کوپسندفرمایاہے اورتین چیزوں کوناپسند،پسندیدہ چیزیں یہ ہیں: (۱)تم اللہ کے لیے عبادت کرو،اوراس کے ساتھ کسی کوشریک نہ ٹھہراؤ۔(۲)اللہ تعالیٰ کی کتاب کومضبوطی سے تھامو،اورنااتفاقی سے بچو۔(۳)اپنے حکام اوراولوالامرکے حق میں خیرخواہی کاجذبہ رکھو۔اوروہ تین چیزیں جن سے اللہ تعالیٰ ناراض ہوتے ہیں یہ ہیں:(۱)بے ضرورت قیل وقال اوربحث ومباحثہ۔(۲)بلاضرورت کسی سے سوال کرنا۔ (۳) اضاعت مال۔(ابن کثیرعن ابوہریرۃؓ)
ذراغورکریں!قرآن نے کتنے حکیمانہ اندازمیں مسلمانوں کے لیے مرکزاتحادکوبیان کیاہے،حالاں کہ اقوام عالم کے لیے اتحادکامرکزجداگانہ تھا،کسی کے لیے اس کی قومیت ہی اس کامرکزاتحادتھا توکسی کے لیے اس کاملک،کہیں کالوں کے لیے کالاہوناتوگوروں کے لیے گوراہونا،اسی طرح عرب میں قبیلہ مرکزاتحادہواکرتاتھا،قریش کے لیے قریش اوربنوتمیم کے لیے بنوتمیم مرکزاتحادتھا،یعنی ہرجگہ ہرملک اورہرقبیلہ میں نقطۂ اتحادالگ الگ تھا،نسلی اورنسبی رشتوں کے ساتھ وطنی اورلسانی وحدیت مرکزاتحادبناہواتھاکہ ہندی ایک قوم اور عربی ایک قوم،کہیںآبائی رسم ورواج کووحدیت کامرکزبنالیاگیاتھاکہ جولوگ ان رسم ورواج کے اداکرنے کے پابندہوں گے وہی ایک قوم سمجھے جائیں گے بقیہ لوگ اس قوم سے خارج ہوں گے جیسے ہندستان میںآریہ سماج وغیرہ۔غرض کہ کہیں بھی کوئی ایسامرکزاتحادنہیں تھاکہ جس پرپوری قوم ایک اصول کے تحت متحدہوسکے،یہ تمام وہ اصول وضوابط اور اتحادکے مراکزتھے جوانسانوں کے بنائے ہوئے تھے جس کانامکمل ہونافطری تھاایسے وقت میں اللہ تعالیٰ نے رنگ ونسل اورقبیلوں وقوموں میں بٹے انسانوں کومتحدکرنے کے لیے ایک جامع اصول نازل کیااوریہ حکم دیاکہ اے ایمان والو!خوہ تم دنیاکے جس گوشہ کے بھی رہنے والے ہو،تم جس نسل اورنسب کے بھی ہو،نہ تمہاراگوراہونااس بات کی علامت ہے کہ تمہارانقطۂ اتحادالگ ہواورنہ تمہاراکالاہونااس مرکزاتحادمیں شامل ہونے کے لیے مانع ہے،خواہ تم ہندی ہویاعربی،امریکی ہویایورپی،چاہے تم پہاڑکے رہنے والے ہو یا جزیروں میں زندگی بسرکرنے والے،یادرکھو!تمہارے لیے مرکزاتحادواتفاق صرف اورصرف ایک ہے اوروہے اللہ رب العالمین اوراحکم الحاکمین کانازل کیاہوا’’قرآن مجید‘‘ یہ وہی قرآن مجیدہے جوتمام شکوک وشبہات سے پاک،تمام تحریف وتاویل سے محفوظ اورپوری عالم انسانیت کے لیے رہنمائے ہدایت ہے۔تمہارے لیے لازم ہے کہ تم اس قرآن کو مضبوطی سے پکڑلو،اس کے احکام پرعمل کرو،فروعی مسائل میں ہزاراختلاف سہی مجموعی طورپرکلمۂ توحید’’لاالہٰ الااللہ محمدرسول اللہ ‘‘کی بنیادپرپوری دنیامیں ایک امت محمدیہ کے نام پرمتحدہوجاؤ،اسی میں تمہارے لیے فلاح ہے،کامیابی وکامرانی ہے۔
ایک طرف قرآن کے اصول اتحادپرنظرڈالیں،اوردوسری جانب ملت اسلامیہ ہندیہ کے منتشرہوتے شیرازہ پرغورکریں تویہ بات صاف دکھائی دیتی ہے کہ آج ہمارے اندر اختلاف کی وجہ صرف اورصرف قرآن کے اس نظریہ سے منحرف ہوناہے۔ہم ببانگ دہل یہ اعلان کرتے ہیں کہ ہم حامل قرآن وسنت ہیں،ہم محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی امت ہیں، اور ساتھ ہی ہم دین کے داعی اوراس کے محافظ ہیں،پھربھی ہماراشیرازہ منتشرہے،آخرکیوں؟ہم مسلکوں،فرقوں،جماعتوں سے ہوتے ہوئے ٹکڑوں میں بٹ چکے ہیں؟ ہمیں برباد کرنے کے لیے پوری دنیا’’الکفرملۃ واحدۃ‘‘کے اصول پرعمل پیراہواکر ایک پلیٹ فارم پرمتحدہوچکے ہیں،اورہم بربادہونے کے لیے مسلک ومشرب سے آگے بڑھ کر جماعتوں سے الگ ہوکراتنے ٹکڑوں میں بٹ چکے ہیں کہ ایک چھوٹے سے چھوٹے معمولی دشمن کامقابلہ بھی ہمارے لیے ناممکن ہوچکاہے،آخرکیوں؟ان کی کیاوجوہات ہیں؟کبھی ہم نے غورکیاہے اس پر؟نہیں،کیوں کہ ہم نے کبھی اس کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی،بس ہم میں سے ہرشخص کایہ حال ہے کہ اسے پنی فکرہے،ہمارااپناکام ہوگیااورہم چلتے بنے،ہم نے پلٹ کرکبھی یہ نہیں سوچاکہ نہ جانے اس اختلاف و انتشارسے ملت اسلامیہ اورامت محمدیہ کاکتنانقصان ہورہاہے؟کبھی یہ سوچنے کی زحمت ہی گوارہ نہیں کی،ان سب کی وجہ صرف اورصرف ایک ہے اوروہ ہے قرآن وسنت سے دوری ،احکام خداوندی سے روگردانی اورمرکزاتحادسے اپنے ذاتی مقاصدکے لیے راہ فرار اختیار کرنا ہے۔ انا اور خواہشات نفس کی تکمیل کے لیے جماعتوں سے اختلاف پیداکرکے اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجدتعمیرکرنا،عہدے اورمناصب کے لالچ میں جماعتوں کے ٹکڑے کرنایہ سب وہ وجوہات ہیں جس کی بنیادپرآج ملت اسلامیہ ہندیہ کاشیرازہ بکھرچکاہے اوروہ چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم ہوچکی ہے جس کاخمیازہ عام مسلمانوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔ 
بہرکیف!اب بھی وقت ہے کہ ملت اسلامیہ ہندیہ کی نمائندگی کرنے والی ملی تنظیمیںآپس میں سرجوڑکربیٹھیں،اورآپسی فروعی اختلافات کوپس پشت ڈالتے ہوئے ایک نقطۂ اتحاد ’’لاالٰہ الااللہ محمدرسول اللہ ‘’صلی اللہ علیہ وسلم پرجمع ہوجائیں،ہروہ شخص جواس کلمہ کاپڑھنے والاہواسے ایک پلیٹ فارم پرجمع کیاجائے،خواہ مسلک کے اعتبارسے وہ شافعی ہو،مالکی یاحنبلی یاپھرحنفی ہو،سلفی ہویاکسی بھی مسلک ومشرب سے تعلق رکھنے والاہوآخرکلمۂ توحیدکااقرارکرنے والاتوہے ،ان سب کوایک پلیٹ فارم پرجمع کیاجائے اورکم ازکم مشترکہ پروگرام کے تحت ایک ایسی جماعت تشکیل کی جائے کہ جب بھی حکومت وقت کے سامنے مسلمانوں کی نمائندگی کامسئلہ آئے توایسانہ ہوکہ یہ فلاں تنظیم سے تعلق رکھتے ہیں تویہ سنی حلقہ کے نمائندہ شخص ہیں تویہ شیعہ جماعت کی نمائندہ شخصیت ہیں،نہیں بلکہ وہاں صرف اورصرف اس ایک متحدہ ملت اسلامیہ ہندیہ کی نمائندہ جماعت ہو،تبھی ہم بااثرہوسکتے ہیں ورنہ وہی ہوگاجوگذشتہ صدیوں سے ہوتاچلاآیاہے۔یہ کسی بڑے المیہ سے کم نہیں کہ سیاسی جماعتیں جوکہ اخلاقی قدروں سے عاری اوراصول وضوابط سے خالی ہوتی ہیں وہ تو کرسی اقتدارکے حصول کے لیے کم ازکم مشترکہ پروگرام بناکرایک پلیٹ فام پرجمع ہوجاتی ہیں اورامت محمدیہ جس کے پاس ہدایت کے لیے قرآن وسنت موجودہے،مرکزاتحاد’’لاالٰہ الااللہ محمدرسول اللہ‘‘ہے پھربھی متحدنہیں ہیں۔گذشتہ دنوں ہندستان کی ایک مقتدرملی تنظیم مسلم مجلس مشاورت نے ہندستان کی دیگرملی تنظیموں کے لیے اتحادکی ایک اچھی مثال پیش کی ہے،ضرورت اس بات کی ہے کہ دیگروہ تمام تنظیمیں جواس طرح کے آپس کے اختلاف وانتشارکاشکارہوچکی ہیں امت مسلمہ کی بھلائی کے لیے اتحادکی اس مثال کوسامنے رکھتے ہوئے اپنے فروعی اختلافات کوبھلاکرملت اسلامیہ کے وسیع ترمفادات کوپیش نظررکھتے ہوئے آپس میں متحدہوجائیں،اس حقیقت سے وہ بھی باخبرہیں کہ ان کے اس اختلاف کا عام مسلمانوں کو کتنی قیمت چکانی پڑتی ہے،لیکن ذاتی انااورمفادپرستی ،عہدے اورمناصب کی لالچ انہیں متحدہونے سے بازرکھے ہوئی ہے،جبکہ قرآن کایہ اصول ان کے سامنے ہے،ہم ان کے لیے صرف اللہ سے یہی دعاکرسکتے ہیں کہ اللہ انہیں ہدایت کی توفیق نصیب فرمائے۔آمین۔
اس وقت وطن عزیزکی جوصورت حال ہے اس کے پیش نظرہندستان کی تمام چھوٹی بڑی ملی تنظیموں کامتحدہوناناگزیرہے،اس کی بہت ہی آسان شکل ہے،تمام تنظیمیں سماجی وفلاح کاموں کواپنے حسب صلاحیت اوراپنے اپنے اصولوں پررہ کرانجام دیں،لیکن ملت اسلامیہ ہندیہ کے وسیع ترمفادات کے پیش نظروہ آپس میں قومی سطح پراپناایک وفاق تشکیل دیں کہ جس کے بینرتلے وہ ہندستان میں بسنے والے عام مسلمانوں کے مفادکی بات کریں،یہ بڑااہم اورنازک وقت ہے،۲۰۱۴ء کے انتخاب کی آمدآمدہے،اس سے قبل پانچ ریاستوں میں انتخاب ہوناہے،بہت سولیے،کم ازکم اب توخواب غفلت سے بیدارہوجائیں اورصرف اپنے ذاتی مفادات کے لیے نہیں بلکہ پوری ملت اسلامیہ ہندیہ کے وسیع تر مفادات کاخیال رکھتے ہوئے ایک پلیٹ فارم پرمتحدہوجائیں،آپ کایہ اتحادپوری دنیاکے لیے ایک مثال ہوگا،اورآپ صرف ہندستان ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پرمسلمانوں پرہونے ہوالے مظالم کوروکنے میں ایک بڑاکرداراداکرسکیں گے ،ورنہ علامہ اقبال کی زبان میں یہی کہاجاسکتاہے: ؂متحدہوتوبدل ڈالوزمانہ کانظام۔۔۔منتشرہوتومروشورمچاتے کیوں ہو*
*
سکریٹری جنرل: رابطہ صحافت اسلامی ہند
*
رابطہ کے لیے:gsqasmi99@gmail.com

اعلان گمشدہ برائے گمشدگی مسلم قیادت؟؟؟


باسمہ تعالیٰ
اعلان گمشدہ برائے گمشدگی مسلم قیادت؟؟؟
نوائے بصیرت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ غفران ساجدقاسمی
یہ خبرنہایت ہی افسوس کے ساتھ پڑھی جائے گی کہ ہندستانی مسلم قیادت تقریباًنصف صدی سے لاپتہ ہے،جس کی تلاش کے لیے متعددبارایف آئی آردرج کرائی گئی،دنیاکی بڑی بڑی انٹلی جنس سروس کاسہارالیاگیا،لیکن ہنوزکوئی سراغ نہیں لگ سکاہے،کچھ لوگوں کے مطابق آزادی کے بعدایک دوبارایوان حکومت میں دیکھاگیالیکن پھراس کے بعدکوئی خبرنہیں مل پائی ہے،مفادعامہ کوپیش نظررکھتے ہوئے یہ اشتہارجاری کیاجارہاہے کہ جن صاحب کوبھی ’’ہندستانی مسلم قیادت‘‘کے بارے میں کوئی سراغ ملے وہ فوراً خبردیں، خبردینے والے کومعقول معاوضہ بطورانعام دیاجائے گا،اورحوصلہ افزائی کے لیے مسلمانوں کی قیادت کااعزازبھی انہیں بخشا جائے گا۔واضح رہے کہ مسلم قیادت کی تلاش کے لیے دہلی کے چندمخصوص علاقوں کومستثنیٰ کیاجاتاہے،کیوں کہ ہمیں باوثوق ذرائع سے مصدقہ طورپریہ خبرموصول ہوچکی ہے کہ ان علاقوں میں چندنام نہادحضرات اپنے آپ کودنیاکے سامنے مسلم قیادت ہونے کاباورکرارہے ہیں جب کہ وہ سب کے سب جعلی ہیں،ہماری انٹلی جنس سروس نے پوری چھان بین کے بعدجورپورٹ ہمیں بھیجی ہے اس کے مطابق ان حضرات کاحلیہ کسی طوربھی ہماری گم شدہ مسلم قیادت سے نہیں ملتاصرف ہم آوازاورہم شکل ہونے کافائدہ اٹھاکروہ قوم وملت کوبیوقوف بنارہے ہیں،لہٰذاان علاقوں میں جانے کی چنداں ضرورت نہیں ہے اورویسے بھی ان جعلی قیادت کے خلاف ہم نے اللہ کی عدالت میں ایف آئی آردرج کرادی ہے،آج نہ کل اوریقینابہت جلدان کے نام وارنٹ جاری ہونے والاہے،آپ کی سہولت کے لیے ہم ان علاقوں کی نشاندہی کیے دیتے ہیں،ان علاقوں میں اوکھلاکاذاکرنگر،بٹلہ ہاؤس،جوگابائی ،شاہین باغ ،اسی طرح جامع مسجد، مسجدفتحپوری اورآئی ٹی اوکی مسجدعبدالنبی بطورخاص قابل ذکرہیں۔
مسلم قیادت کی گمشدگی کی خبرپڑھتے ہوئے آپ کوشدت سے یہ احساس ستارہاہوگاکہ آخرہم مسلم قیادت کوبغیرکسی علامت کے کہاں اورکیسے تلاش کریں، تولیجیے آپ کی پریشانی ہم حل کیے دیتے ہیں،مسلم قیادت کی تلاشی کے لیے ایک بات کاخیال رکھیں کہ انہیں کسی خاص لباس اورخاص حلیہ کے تناظرمیں تلاش کرنے کی کوشش نہ کریں،وہ کسی بھی لباس اورکسی حلیہ میںآپ کومل سکتے ہیں بس آپ کوان کے اندرمندرجہ ذیل اوصاف کوتلاش کرناہے کہ جوشخص بھی ان اوصاف کاحامل ہوگا یقیناوہی مسلم قیادت کااہل ہوگابالفاظ دیگروہی’’ مسلم قیادت‘‘ ہوگا۔ہوسکتاہے کچھ لوگ آپ کوگمراہ کرنے کی کوشش کریں کہ مسلم قیادت آپ کوصرف اورصرف کرتا پائجامہ ٹوپی اورشیروانی میں ہی مل سکتاہے ؟یہ فلسفہ قطعی طورپرغلط ہے،ممکن ہے کہ وہ اس لباس میں بھی ہوں لیکن موجودہ صورت حال کے پیش نظرصرف اسی لباس میں ملناتقریباناممکن ہے،حقیقت تویہ ہے کہ قیادت کاحق توعوام وخواص نے اس سے بڑھ کریہ کہ خوداللہ تبارک وتعالیٰ نے انہیں ہی سونپاتھالیکن مادیت پرستی اوراپنی دنیاداری کے چکرمیں پھنس کریہ لوگ مسلم قیادت کے فریضہ سے سبکدوش ہوچکے ہیں،لہٰذاکسی غلط فہمی میں شکارہونے کی ضرورت نہیں ہے،لیکن امیدپردنیاقائم ہے ، اگراس کلیہ پرعمل کیاجائے تواس گروہ میں بھی مسلم قیادت کوتلاش کیاجاسکتاہے،ممکن ہے کہ تلاش بسیارکے بعدہندستان کے کسی گوشہ سے دستیاب ہوجائے،ہمیں اللہ کی رحمت پرکامل بھروسہ ہے اوراللہ کی ذات سے یہ بعیدنہیں کہ وہ ہمیں پھراسی گروہ سے کوئی مخلص قائدمہیاکرادے۔
بہرحال!ہم گفتگوکررہے تھے مسلم قیادت کی علامات اوران کے اندرپائی جانے والی خوبیوں اوراعلیٰ اخلاق ومحاسن کا،تواس کے لیے بہترہے کہ ہم رخ کرتے ہیں عہدنبوت کااوراس کے بعدخلافت راشدہ کے دورکاجن کے دورمیں اسلام مشرق سے مغرب تک اورعرب سے افریقہ کے راستہ یورپ تک پہونچا اور اسلامی لشکرکویہ تمام فتوحات جنگ وجدال کے ذریعہ نہیں بلکہ اعلیٰ اخلاق اوربہترین اوصاف وکردارکے ذریعہ نصیب ہوا،اسلام کے ان جیالوں نے اپنے ہرہرعمل سے ثابت کردکھایاکہ وہ پیغمبراسلام اورداعی اعظم کے سچے پیروکاراورجانشیں ہیں،اورسنت نبوی کے اسی پیروی کی وجہ کردنیاان کے قدموں میں گرتی چلی گئی،ہمیں بھی اپنے اندرسے ایسے ہی قائدکی تلاش ہے،جن کے اندرحضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کی سچی جانثاری کے ساتھ صدق ووفااورفراست ایمانی کاعنصرکوٹ کوٹ کر بھرا ہو، حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کی بے نظیرشجاعت موجودہوکہ جس کے نام سے کفارومشرکین دم دباکربھاگنے پرمجبورہوجائیں،حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کاحیااوران کی سخاوت موجودہوکہ ہرموقع سے اپنے جان ومال کے ذریعہ مسلمانوں کاسربلندکرتے رہیں،حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی بہادری ہوکہ جن کے سامنے آنے سے اور مقابلہ کرنے سے بڑے بڑے بہادرگھبراتے ہوں،آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ تودیوانوں کی باتیں ہیں بھلااس دورمیں ایسے لوگ کہاں دستیاب ہوسکتے ہیں، تو میرے بھائی ایسے لوگ تھے اورابھی ان کازمانہ گذرے ہوئے کوئی بہت لمباعرصہ نہیں ہواہے،اوریہ بھی ذہن نشیں کرتے چلیں کہ ہندستان میں اگرآج ہماری کوئی شناخت ہے توانہی بزرگوں کی وجہ سے جنہوں نے اپنی فراست ایمانی،اپنی بے نظیرشجاعت اوراپنی سخاوت وبے نیازی اوربہادری سے ہمیں ہندستان میں سر اٹھا کر جینے کاحق دیا۔
آپ کومعلوم ہے کہ جب ہمارے ہی ملک میں ہمیں ہماراحصہ دینے کے بجائے یہ کہاجاتاہے کہ تم اس ملک کے وفادارنہیں ہوتمہارایہاں کوئی حصہ نہیں ہے، اور تمہیں یہاں رہنے کاکوئی حق نہیں ہے تواس وقت ہماراکیاجواب ہوتاہے ؟ہماراجواب یہی ہوتاہے کہ ہمیں غداروطن کہنے والواپنی بھی تاریخ دیکھواورہماری بھی قربانیوں کو یاد کروکہ اس ملک کی آزادی میں،وطن کی تعمیرمیں ہمارابھی اتناہی حق ہے جتناکہ تمہارابلکہ اس سے بھی بڑھ کراورجتناخون تمہارابہاہے اس ملک کی آزادی کے لیے اس سے کہیں زیادہ ہماراخون بہاہے،ذراغورکریں کہ اس جواب میں جوہم نے ہماراخون بہاہے کالفظ استعمال کیااس سے کیامرادہے،اس سے مراددرحقیقت ہمارے وہی اسلاف اوراکابرہیں جن کے اندرصحابہ کرام کی سیرت کاعکس تھااورجنہوں نے اسلام اورمسلمانوں پرآنے والی ہرمصیبت کاپہلے سے ہی اندازہ کرکے اس کے تدارک کے لیے پیش قدمی شروع کردی،اورپنی فراست ایمانی اوربے نظیرشجاعت کے ذریعہ دشمنوں کی ہرتدبیرکاپانسہ پلٹ دیاان میں ایسے جیالے اورغیورحضرات بھی تھے جنہوں نے دشمنوں سے جنگ کے محاذپربھی لڑائی کی،اوراپنی جان جان آفریں کے سپردکردیں،وہ صرف گفتارکے غازی نہیں تھے بلکہ گفتارسے زیادہ کردارکے غازی تھے،ذراآپ تاریخ اٹھاکردیکھیں توآپ کوپتہ چلے گاکہ آخریہ کون لوگ تھے اورکیاانہوں نے جوتحریک چلائی وہ اپنے عیش وآرام کے لیے تھی؟کیااپنی اولادوں کے مستقبل کوسنوارنے کے لیے تھی؟کیااسمبلی اورپارلیمنٹ کی ممبرشپ حاصل کرنے کے لیے انہوں نے ساری جدوجہدکی؟کیاان کی جدوجہدکامنشاصرف یہ تھاکہ ہماری شہرت ہوجائے اورہمیں کچھ ایوارڈاورتمغہ مل جائے یاکسی بورڈیاکمیٹی کی چیرمین شپ مل جائے؟نہیں ہرگزنہیں ان کی ہرجدوجہداخلاص پرمبنی تھی،ان کے ہرہرعمل میں للہیت تھی اوران سب کاایک ہی مقصدتھا کہ ہرحال میں اسلام سربلندرہے اورمسلم قوم سراٹھاکرجیے،ہندستان میں جدوجہدکی ایک طویل تاریخ ہے،اوراس تاریخ کے سنہرے اوراق پرچندنام ثبت ہیں جوانمٹ ہیں جسے مٹانے کی کسی تاریخ میں ہمت نہیں ہے،ان سب کے قائداورسرخیل شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اورشاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ ہیں اوران کے بعدان کے بالواسطہ اوربلاواسط شاگردوں کی ایک لمبی فہرست ہے جس کااحاطہ کرنااس مختصرمضمون میں ناممکن ہے،صرف چند کے ذکر پر اکتفاکرتاہوں،جن کے نام یہ ہیں:حضرت شاہ اسماعیل شہیدؒ ،حضرت مجددالف ثانیؒ ،حضرت مولاناقاسم نانوتویؒ ، سرسید احمدخاںؒ ،حضرت شیخ الہند مولانا محمودالحسن دیوبندیؒ ،حافظ ضامن شہیدؒ ،مولانارشیداحمدگنگوہیؒ ،مولانامحمدعلی جوہرؒ ،مولاناشوکت علی جوہرؒ ،مولاناحسین احمدمدنیؒ ،مولاناابوالکلام آزادؒ ،شہیداشفاق اللہ خاںؒ ، مولانا حفظ الرحمن سیوہارویؒ وغیرہ،اسی طرح اس فہرست میں بہت سارے نام ایسے ہیں جومختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھتے ہیں اورانہوں نے اپنی بساط کے مطابق مسلم امت کی قیادت کی،اوربے لوث قیادت کی،اوریہ قیادت ہمیں ملک کی آزادی تک نظرآتی ہے جب تک کہ یہ بے لوث اورمخلص خادم قوم وملت بقید حیات رہے، ان کے جانے کے بعدآج ملت اسلامیہ ہندیہ کاشیرازہ بکھرچکاہے،کوئی نہیں ہے ایساجواس ملت کے منتشرشیرازہ کویکجاکرسکے،بلکہ المیہ یہ ہے کہ دوسروں کو اتحادکادرس دینے والے آج خودمنتشرہیں،کوئی الف ہے توکوئی میم،کوئی سین ہے توکوئی شین؟توبھلاکیسے ہوگااس ملت کااتحاداورکون ہوگااس اتحادکاقائد؟؟؟
الغرض!ہمارامقصدہے مسلم قیادت کی تلاش جوکہ اس قوم کی صحیح اوررہنمائی کرسکے،بے لوث اوربے غرض رہنمائی،مذکورہ بالاصفات کے حامل جوافرادآپ کو کہیں نظرآجائیں خداراہمیں مطلع کریں،مطلع کرنے کاآسان طریقہ ہے کہ اس وقت ہندستان میں مسلمان جن پریشانیوں میں مبتلاہے اورجن مصائب وآلام سے دوچارہے ،کوئی پرسان حال نہیں ہے،آپ بناکسی لالچ کے ان مسائل کواٹھائیں اگرآپ اسمبلی یاپارلیمنٹ میں ہیں توبغیرپارٹی کے دباؤ کے خوف یارکنیت چھن جانے کے خوف سے آپ آوازاٹھائیں اگرآپ کی آوازمیں خلوص ہوگا تومیں گارنٹی دیتاہوں کہ اللہ کی مددآپ کے شامل حال ہوگی اورپوری مسلم قوم آپ کے پیچھے نہیں بلکہ آپ کے ساتھ شانہ بہ شانہ کھڑی ہوگی اوریقیناآپ ہی مسلم قیادت کے اہل ہوں گے،ویسے جاتے جاتے ایک خوش خبری دیے جاتاہوں کہ ابھی ہماری انٹلی جنس نے رپورٹ دی ہے کہ گذشتہ دنوں لکھنؤ کے ایک اجلاس میں مسلم قیادت کی ایک ہلکی سی جھلک نظرآئی ہے،جوکہ مسلم نوجوانوں کی بلاوجہ گرفتاری کے خلاف بیداری مہم چلارہے ہیں،ابھی اس کے بارے میں زیادہ کچھ نہیں کہہ سکتاہوں کیوں کہ تفتیش جاری ہے،کہ واقعتا وہ اپنی اس تحریک میں مخلص ہیںیا؟؟؟
*
سکریٹری جنرل: رابطہ صحافت اسلامی ہند
رابطہ کے لیے:gsqasmi99@gmail.com